نمیرہ محسن 84

شاعری نمیرہ محسن،پی این پی نیوز ایچ ڈی

آپ نے پپیہے کو سنا ہوگا، بلبل کے نالے بھی کہیں سماعت سے گزرے ہونگے؟ منے منے طوطوں اور چڑیوں کو قفس میں فریادیں کرتے سنا ہو گا۔
پپیہا تب پی ہو کرتا ہے جب اس کے گلے میں ساون کا بادل قطرہ بن کر اترتا ہے۔
بلبل اپنے نشیمن کو نہیں گلشن کے اجڑنے کو روتا ہے۔
کوئل بہاروں کا پیغام لے کر آتی ہے۔
مینا اپنے پروں پر دھرے پوری دنیا سے چگے قصوں کو نغموں میں ڈھالتی ہے۔
قفس میں مجبور پرندے آزادی کے خواب دیکھتے اور جرآت مندانہ گیت گاتے ہیں۔
ویسے ہی شاعر بھی انسانی دنیا کے وہ پرندے ہیں جن کو نغمہ عطا ہوا ہے۔ جب اظہار اور پرواز ہر دوپر پابندی ہو تو ان کے گلے دنیا کے دکھوں سے رندھ جاتے ہیں۔ اور وہ دکھ موتی موتی غزلیں اور شاعری بن جاتے ہیں۔
اچھے دنوں میں خوشی کی تانیں اڑاتے اور لوگوں کے دل کی بات منظم صورت میں سامنے لا رکھتے ہیں۔
ہر قاری یہ سمجھتا ہے کہ یہ تو اس کے دل کی بات تھی جو وہ کبھی کہہ نہ پایا۔
مجھے اپنے ذی قدر استاد امجد اسلام امجد بہت یاد آتے ہیں۔ کیا خوب نظر تھی۔ ہم جس کیکر کے کانٹے دیکھتے رہے وہ اس میں پھول ڈھونڈ لائے۔ اللہ انہیں غریق رحمت فرمائے۔ آمین۔
شاعر وہ چیز ہمارے سامنے لا رکھتا ہے جس کی ہمیں عادت تو ہوتی ہے مگر اس کی اہمیت کم ہو جاتی ہے۔
غور کیجئیے، سوچئیے،لکھتے رہئیے، کھوجتے رہئیے، اور کتابیں پڑھئیے!

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں