بڑی محبت ہے اس کو خزاں سے 182

میرے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

سیدہ نمیرہ محسن،پی این پی نیوز ایچ ڈی

میرے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!)
اے ناداں دل! تو اپنی دھڑکن سے کیوں پریشان ہے؟
آقا (صلی اللہ علیہ وسلم )کا نام آئے تو پتھر بھی بول پڑتے ہیں
ان کی محبت میں کئی دل پاش پاش ہو گئے
تو تو ایک ذرہ ہے خاک کا
اپنے محبوب کی عزت کے لیے آواز اٹھا
اس محبوب کے لیے موت کو ہنستے ہوئے گلے لگا لے
جو تیری خاطر راتوں کو سوتا نہ تھا
واجب ہے کہ
تیری انکھیں
ان کی محبت میں
آنسو بن کر بہہ جائیں
وہ آنکھ بھی کیا بدنصیب ہو گی
جو سرکار کائنات کو محشر میں دیکھ نہ پائے
یہ آنسو ندامت کے ہیں یا شکرگزاری کے
بس ان سے اپنی چشم فتنہ گر کو غسل دے
پاک رکھ ان دو آبگینوں کو
اور آواز اٹھا
مت سوچ کہ تیری کون سنے گا
یقین رکھ کہ
محبوب کا محبوب سن رہا ہے
خواہ تیری آواز
موتی کے بطن میں چپکے سے
اترنے والے بارش کے
یا شبنم کے موہوم قطرے سی ہو
سنی جائے گی
یاد رکھ
کہ ارزاں میٹھے پانی کا قطرہ
اک دن سیپ کی گھٹن میں
بیش بہا موتی بنا
دمکتا ہے
آواز اٹھا
ناموس رسالت کے لیے
اور لٹ جا
اس جان بہاراں پر
جس کا مکھڑا چاند کو بھی ماند کردے
اے خاکی
تو نے خاک میں ملنا ہے
سوچ ذرا
کیا خوب ہو کہ تو
مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم
کے قدموں میں دھول ہو جائے
آواز اٹھا اس سے پہلے کہ
تیری جان رائیگاں
بدن کو چھوڑ دے
اور تو مایوس دیکھتا ہو۔
ھدیہء محبت

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں