Former senior member of "Bizm Fanoos Riaz" and wife 104

معروف شاعر رخسار ناظم آبادی ،اللہ کی مشیت اور تقدیر پر مطمئن دلوں اور نم آنکھوں کے ساتھ سپرد خاک

معروف شاعر رخسار ناظم آبادی ،اللہ کی مشیت اور تقدیر پر مطمئن دلوں اور نم آنکھوں کے ساتھ سپرد خاک.
لحاظ کرتے ادب احترام کرتے ہوئے
گزر گیا وہ محبت کو عام کرتے ہوئے

بحرین رپورٹ (احمد امیر پاشا سے،تازہ اخبار ،پی این پی نیوز ایچ ڈی)

مملکت بحرین، اردو کے معروف شاعر رخسار ناظم آبادی کا گزشتہ شب انتقال ہو گیا۔رخسار بھائی ایک بہترین انسان ، عمدہ شاعر اور مخلص دوست تھے.آپ کی رحلت بحرین کے ادبی حلقوں کا ایک عظیم نقصان ہے. آج نم انکھوں کے ساتھ، بحرین کے منامہ قبرستان میں سپرد خاک کیے گئے۔ بعد نماز عصر نماز جنازہ ادا کی گئی۔ بڑی تعداد میں ﺩﻭﺳﺖ ﺍﺣﺒﺎﺏ ہر مکتبہ فکر سے تعلق رکھنےوالے حضرات نے نماز جنازہ ادا کی اور مغفرت کی دعا کی.
محمد رخسارم انصاری تخلص ،رخسار ناظم آبادی 22؍اکتوبر 1959ء کو بانس بریلی، اتر پردیش، ہندوستان میں پیدا ہوئے۔
ابتدائی تعلیم اشفاقیہ پرائمری اسکول شاہدانہ بانس بریلی سے حاصل کی، مولانا آزاد انٹر کالج بریلی سے انٹرمیڈیٹ کیا-
والد صاحب جو اپنی ملازمت کے سلسلے میں کسی اور شہر میں مقیم تھے، ان کی والدہ اور دوسرے بہن بھائی والد کے ساتھ رہتے تھے رخسار بھائی اپنی تعلیم کی وجہ سے اپنے نانا غنی بریلوی کے ساتھ رہتے تھے غنی بریلوی جو کہ نعتیہ شاعر ہونے کے ساتھ بہت معروف نعت خواں بھی تھے،
اپنے نانا غنی بریلوی کے ہمراہ اکثر میلاد کی محفلوں میں شریک ہوتے تھے رخسار بھائی نے بچپن سے ہی شاعرانہ ماحول میں پرورش پائی۔حضرت مونس بریلوی سے تلمیذ حاصل ہے اور گزشتہ تیس برس سے روزگار کے سلسلے میں بحرین میں مقیم تھے۔ آپ کا تعلق کراچی (پاکستان) سے تھا۔
رخسار ناظم آبادی کا طویل علالت کے بعد،کل 22؍اپریل 2024ء کو صبح 3:00 بجے انتقال ہو گیا ہے۔ وہ اچانک کئی قسم کی بیماریوں میں مبتلا ہو گئے تھے۔
رخسار ناظم آبادی کے مجموعہ کلام “زندگی” سے منتخب اشعار بطور خراجِ عقیدت.
ابتدا کرتا ہوں رب کے نام سے
اس لئے ڈرتا نہیں انجام سے

جھوٹ اس سے میں کس طرح بولوں
وہ مرا اعتبار کرتا ہے

اب زمانہ شریف لوگوں کو
بز دلوں میں شمار کرتا ہے

سینکڑوں فکر میں آج لپٹا ہوا
آدمی کیا ملے آدمی کی طرح

اچھا ہوا کہ ترکِ تعلق ہی کر لیا
آنکھوں کو انتظار کی زحمت نہیں رہی

کوئی اس سے پوچھے جو گھر کا بڑا ہے
وہ کتنے محاذوں پہ تنہا کھڑا ہے

پیٹ پالے دکھ سہے سجدہ کرے
اب اکیلا آدمی کیا کیا کرے

اک اندھیرا ہے یہ روشنی کی طرح
زندگی ہے نہیں زندگی کی طرح

جب ہمیں کوئی کام ہوتا ہے
تب دعا اور سلام ہوتا ہے

اطراف دوستوں کا ہے حلقہ کھنچا ہوا
میں کتنے دشمنوں کی فیصلوں میں قید ہوں

دکھ ہے وہ زندگی بھی لگے گی حساب میں
جو زندگی گزاری گئی اضطراب میں

جینا یہاں کٹھن ہے مگر حوصلہ کریں
ہم بھی تو جی رہے ہیں جہانِ خراب میں

ظہورِعشق فلک سے نئے نصاب کے ساتھ
زمیں پہ حسن اتارا گیا کتاب کے ساتھ

آجکل پینسل سے کاغذ پر
دھوپ میں روٹیاں بناتا ہوں

میں کبھی دشمنی نہیں کرتا
اور ہو جائے تو نبھاتا ہوں

اک پل کا قرب ایک برس کا پھر انتظار
آئی ہے جنوری تو دسمبر چلا گیا

زندہ رہنا ہے اگر تاریخ میں
پُل محبت کے یہاں تعمیر کر

تب عدالت سے رعایت نہیں مل پاتی تھی
تب گنہگار، گنہگار ہُوا کرتے تھے

عشق تو وہ فقیر ہے جس کا
بادشہ خود غلام ہوتا ہے

گِھر کر بھنور میں اپنا یہی مشغلہ رہا
اِس پار دیکھنا کبھی اُس پار دیکھنا

گو بظاہر تو ہیں ارتقا کی طرف
گامزن ہے ہراک شَے فنا کی طرف

حیات اک قید ہے اور با مشقّت
جئیں اور عمر بھر چکّی چلائیں

مَیں اک صفر ہوں مگر مجھ سے دھائی بنتی ہے
اکائی والے کہیں سے گھٹا نہیں سکتے

میں جل رہا ہوں کسی کو یقیں نہیں آتا
جو بجھ گیا تو مری بات معتبر ہوگی

سینکڑوں سال لوگ جیتے تھے
اک مہینے کا ایک سال تھا کیا؟

تحریر کردہ دکھ بھرا کردار ہے جسے
ہنس کر نبھا رہے ہیں اداکار کی طرح

زندگی اتنی تلخ ہے اس پر
زہر کا بھی اثر نہیں ہوتا

گنتی میں بڑھ گئی ہے مری عمر ایک سال
اور جو لکھی ہے ایک برس اُس میں گھٹ گیا

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں