آو محبوب من
اے میرے دل آزردہ
چاندنی رات میں
لمبی نیلی سڑک پر
دور کہیں نکل جائیں
رات کی رانی کے پھول
مہکتے ہوں
اور چمپا ہاتھوں میں اپنا دل پکڑے
ندی میں اترتی چاندنی کی
اجلی خالی
سیڑھی کو تکتا ہو
آو میرے دل برباد
اب خانہ بدوش ہو جائیں
اس دنیا کے ہر گھر پر
کچھ تختیاں کھدی ہیں
تیرا اور میرا
ہم دونوں حرماں نصیبوں کا نام
کسی بھی دروازے پر
نہیں موجود
آ کہ اب اپنے غموں کی گٹھڑی کو اٹھا کر
کہیں جنگل میں جا بسیں
وہاں صرف جانور ہوں گے
آدم خوروں کی بستی میں
اچھا ہے ہمارا نام کہیں نہیں لکھا
چاند بھی اپنی خالی سیڑھی کو تکتا ہے
جانے والے کے قدموں کی چاپ نے
کئی خونخوار درندوں کو
بیدار کردیا ہے
اب وہ سب تجھے اور مجھے کھا جائیں گے
اور کہیں پتہ بھی نہ ہلے گا
میرا خون گلاب کے پھولوں کو
سرخ رنگ دے گا
اور وجود
وقت کے پانی میں
گھل کر
لوگوں کے دلوں میں اترے گا
پھر کون تم کو بھولے گا
جب ہر دل میری داستان کہے گا!!!
چاند جلد اپنی روپہلی سیڑھی سمیٹ لے گا
اور
یہ مرتا ، ملگجا اندھیرا
مر ہی جائے گا
تیرا میرا دکھ
خدا کے سوا
کون سنے گا؟
تو چل اے حرماں نصیب
ان درندوں کی بستی کو چھوڑیں
اور
یہاں سے چل دیں
نمیرہ محسن
فروری 2024
150