خصوصی انٹرویو،پی این پی نیوز ایچ ڈی 154

خصوصی انٹرویو،پی این پی نیوز ایچ ڈی

کراچی /خصوصی انٹرویو، اعجاز احمد طاہر اعوان

علمی گھرانے کے ہونہار، اعلی تعلیم یافتہ چشم و چراغ، ماہر تعلیم، ممتاز آرٹسٹ، کیلیگرافر،آنٹرپینوئر، اور موجودہ پاکستان انٹرنیشنل اسکول ریاض کے سینئر بوائز ونگ کے پروفیسر محترم عظمت اللہ بھٹہ کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں، ان کا خصوصی انٹرویوکیا گیا، جسمیں”سیرت رسول کی روشنی میں آج کے استاد کی دوران تدریس حکمت عملی” کے موضوع پرپوچھے گئے سوالا ت پر اظہار خیال ،جو قارئین کی دلچسپی اور معلومات میں آضافہ کے لئے ذیل کی سطور میں پیش خدمت ہے،
عظمت اللہ بھٹہ نے اپنی زندگی کے اوراق کوپلٹتے ہو ئے بتایا کہ میرا تعلق پاکستان جہلم کے ایک، اعلی تعلیم یافتہ خاندان سے ہے، میرے والد محترم محمد سعید بھٹہ مرحوم نے اپنی محنت اور لگن سے میرے سب بہن بھائیوں کو اعلی تعلیم سے آراستہ کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں زندگی کے اہم شعبوں میں پیشہ وارانہ تربیت دلوائی، جو آج عملی طور پر اپنے بچوں کے ساتھ کامیاب زندگی گزار رہے ہیں۔
عظمت اللہ بھٹہ نے اپنی ابتدائی تعلیم کے بارے بتایا کہ میں نے جہلم کےگورنمنٹ کمپریہنسو ہائی اسکول سے 1980 میں میٹرک امتیازی نمبروں سے پاس کیا، جہلم ڈگری کالج سے انٹر مینڈیٹ ،جامعہ سلفیہ فیصل آباد ، جامعہ اثریہ جہلم اور معروف اور قدیم درسگاہ دارالحدیث چینیانوالی لاھور سے”درس نظامی” کا آٹھ سالہ کورس مکمل کیا اسی دوران جامعہ پنجاب سے گریجوئیشن مکمل کی اور1989 میں پنجاب یونیورسٹی “اوریئنٹل کالج لاہور “سےایم اےعر بی ، فسٹ ڈویژن میں پاس کیا۔
عظمت اللہ بھٹہ نے اپنی عملی زندگی کے بارے میں بتایا کہ ماسٹر کی اعلی ڈگری حاصل کر نے کے بعد، “مزنگ “لاھور میں واقع 1948 سےقائم شدہ ادارہ ” حلیم انسٹیٹیوٹ ” سےبطور استاد عملی زندگی کا آغاز کیا، 2 سال بعد 1993بسلسلہء روزگار میں سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں پہنچ گیا اور بین الاقوامی اشاعتی ادارے “مکتبہ دارلسلام انٹرنیشنل” کے مختلف شعبوں جنمیں تحقیق و ترجمہ، شعبہ تدوین اور ڈیزائن میں کام کرنے کا موقع ملا ، اس ادارے میں رہتے ہوئے میں نے نہ صرف بہت کچھ سیکھا بلکہ آمدہ زندگی کیلئے اھداف کا تعین آسان ہو گیا۔ 1995کے اوائل میں پاکستانی انٹرنیشنل اسکول، ریاض کیساتھ بطور مدرس اسلامیات ، شعبہ تدریس سے منسلک ہو گیا۔
عظمت اللہ بھٹہ نے اپنی گفتگو کے سلسلہ کو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہمارے لئے کئی حیثیتوں سے ماڈل ہیں ، جن میں بحیثیت سپہ سالار، بحیثیت والد، دوست، نبی اور تاجر وغیرہ شامل ہیں.
۔ مگرسرور کائنات نے اپنے لیےمعلم کی حیثیت کو پسند فرمایا ” «إنما بُعثت معلِّمًا»” بے شک مجھے ایک استاد بنا کر بھیجا گیا ہے۔
شعبہ تعلیم سے وابستہ افراد بالخصوص اساتذہ کرام کے لئیے یہ امر بےحد ضروری ہے کہ وہ اپنے شاگردوں کی تعلیم میں آسانی پیدا کریں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا” سکھاو! اور آسانی پیدا کرو ، تنگی پیدا نہ کرو”۔ دوران تعلیم نرمی اور شفقت سے پیش آئے ، ڈانٹنے ڈپنے سے جو علم حاصل ہو گا ناقص ہو گا۔ طلباء میں شوق پیدا کیا جائے، صحیح بخاری کی روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا”اور لوگوں کےلئے آسانی پیدا کرو ، بیزار مت کرو ، جب تم میں سے کسی کو غصہ آجائے تو خاموشی اختیار کرو ۔ آج ہمارا نظام سختی کرنیوالا ہے ، ہمیں چاہئے کہ ہم اپنے طلباء سے شفقت، رحم اور اچھائی کا معاملہ رکھیں ۔ آج استاد سٹوڈنٹ کو عزت نہ دے کر ان سے یہ توقع رکھتا ہے کہ وہ اسکی عزت کرے۔ مدارس ، بالخصوص بعض دینی مدارس میں سٹوڈنٹ استاد کا رشتہ صرف مار پیٹ کا رہ گیا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں پروفیسر صاحب نے فرمایا :کہ اگر کسی طالبعلم سے کوئی غلطی ہو جائے تو استاد کی آزمائش کا وقت شروع ہو جاتا ہے، تب بھی شفقت اور نرمی کا رویہ اپنانا ہو گا۔ صحیح مسلم کی ایک روایت ہے ایک شخص مسجد نبوی میں داخل ہوا ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے سامنے سے گزرتا ہوا مسجد نبوی کے کونے میں جاتا ہے اور وہاں پیشاب کردیتا ہے ۔ صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین یہ منظر دیکھ کر غصے سے بھر گئے اور اس پر ٹوٹ پڑنے کے لئے اٹھے آپ نے فرمایا خاموش بیٹھ جاؤ، اسے تکلیف نہ دو روکو گے تو اسے تکلیف ہو گی ، بھاگے گا تو ادھر اُدھر پھیل جائے گا۔ایک صحابی کو فرمایا جا کر پانی کا ڈول ڈالو، آپ نے اس شخص کو بلا کر فرمایا”مسجد یں اللہ کا گھر ہوتی ہیں ، ان میں ایسا کام نہیں کرتے۔
میں سزا کے خلاف نہیں ہوں ، کیونکہ جزا اور سزا تو اللہ کے ہاں بھی ہے بشرطیکہ اس میں طالب علم کی اصلاح مقصود ہو ، نہ کہ اس سے بدلہ لینا ۔ “یہ مجھ پر ہنسا” یا “اس نے مجھ سےٹیڑھے سوال پوچھے ، میں اسکو ماروں گا”۔ایسا ہر گز مناسب نہیں۔ سزا کی نوعیت بدلی جا سکتی ہے مثلا بریک بند کر دی جائے، ایک یا دو دن ۔مقصد اصلاح ہو تذلیل نہ ہو۔ ٹیچر تھوڑا سا سخت ہو سکتا ہے اگر نہ ہو تو یہ اسکی خصوصیت ہو گی۔ انس بن مالک فرماتے ہیں 10 سال تک میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ساتھ رہا ، آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم ایک مرتبہ بھی مجھے اف تک نہ کہا۔
اسی طرح اگر طلباء صحیح کام کریں تو ان کی حوصلہ افزائی کی جائے ۔ بچوں کو موٹیویٹ کیا جائے ۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم صحابہ کرام کی حوصلہ افزائی فرماتے، جنگ موتا میں خالد بن ولید کو سپہ سالار بنا کر بھیجا تو فرمایا ” اب اللہ کی تلوار (سیف اللہ ) نے کمان سنبھال لی ہے ” اسی طرح أبو عبیدہ بن جراح کو یمن تبلیغی مشن پر روانہ کیا تو ان کو “امین الامت ” کا خطاب دیا۔
بچوں کی حوصلہ افزائی کے لیے اگر ان کو کوئی نہ کوئی ٹائیٹل دے دیا جائے تو اس استاد کا کیا خرچ ہو گا۔ ہمارے ہاں مدرس اس کی تعریف کرتا ہے جو اسکا پسندیدہ ہو ، چاپلوس ہو، کسی تعلق والے کا فرزند ہو ۔ ہر بچے میں کوئی نہ کوئی خصوصیت ضرور ہوتی ہے۔بچوں کوصرف رزلٹ کارڈ پر درج نمبروں کی بنیاد پر نہ پرکھا جائے،بلکہ اس کی شخصیت میں موجود دیگر صلاحیتوں کو اجاگر کرنے میں اسکی مدد اور راہنمائی کی جائے ۔
اللہ کے رسول ہر شخص کو اس کی شخصیت کے مطابق اکاموڈیٹ فرماتے، مختصر مگر جامع گفتگو فرماتے۔ اہم چیزوں کو بار بار دھراتے۔لہذا ایک استاد اپنے اسباق کو بار بار دھراۓ ۔ اسی طرح استاد کو چاہئے کہ طلبا کو زیادہ موثر طریقے سے پڑھانے کےلۓ مددگار ذرائع کا استعمال کرے ۔رسول اللہ زمین پر ڈائیگرام بنا کر صحابہ کرام کو سمجھاتے۔
عظمت اللہ بھٹہ نے مزید کہا کہ اساتذہ اپنے شاگردوں کے اندر “سوال پوچھنے” کی عادت کے اندر پختگی لانے پر خصوصی توجہ دیں، اور طلباء کے دل و دماغ کے اندر سوال ابھرنے کی تمام صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کے راستے ہموار کئیے جائیں، رسول اکرم اکثر اپنی گفتگو کا آغاز اس طرح کے کلمات سے فرماتے” کیا میں تمہیں یہ بات نہ بتاؤں؟” ،”کیا تم میں سے کوئی جانتا ہے کذاوکذا”
استاد کلاس میں مکمل تیاری سے جاۓ اور 30یا 40منٹ کے پیریڈ کو مکمل منصوبہ بندی سے تدریس میں صرف کرے۔ کیونکہ مدرس اس پیریڈ کےمعاوضہ کا حقدار اسی صورت ہوگا جب وہ اپنے تدریسی فرائض پوری ذمہ داری سے ادا کرے ۔ اگر کسی سوال کا جواب دینے سے قاصر ہے تو غلط پڑھانے کی بجائے اگلے روز تحقیق کر کے پڑھا دے۔ رسول اللہ جب کسی معاملے کوئی واضح حکم نہ پاتے تو توقف فرماتے اور خاموشی اختیار فرماتے ، جب وحی نازل ہو جاتی تو فرماتے کہ فلاں فلاں کو بلاو ،جب وہ آ جاتے تو ان کو جواب دیتے۔

عظمت اللہ بھٹہ نے والدین پر زور دیا کہ وہ اپنی کاروباری مصروفیات کے ساتھ ساتھ اپنے بچوں کے بہتر اور روشن مستقبل پر خصوصی توجہ دیں، اور ان کی غیر نصابی سرگرمیوں پر کڑی اور گہری نظر رکھیں ، انہں وہ آداب اور مینرز سکھائیں جو ہمیں سب سے بڑے استاد و رہبر حضرت محمد صلی الہ و آلہ وسلم نےسکھاۓ ہیں ۔ جس کی آج کے دور میں اشد ضرورت ہے۔
عظمت اللہ بھٹہ نے آخر میں آپنے خصوصی پیغام میں کہا کہ تدریسی اداروں سے “دوران تعلیم “رٹہ سسٹم” کو فوری طور پر ختم کیا جائے،اور تعلیم کے مقصد کو مقصدیت سے ہمکنار کیا جائے ، اپنے اساتذہ کا دل سے احترام کیا جائے، اور طلباء کو ترغیب دی جائے کہ وہ نصابی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ ہم نصابی سرگرمیوں میں بھی بھرپور حصہ لیں۔
مزید برآں تدریسی طریقہ کار کو جدید خطوط سے استفادہ کرنے کی پالیسی کو بھی متعارف کرایا جائے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں