نمیرہ محسن 115

کبھی کبھار ایسا بھی کوئی لمحہ وارد ہوتا ہے

شاعری نمیرہ محسن،پی این پی نیوز ایچ ڈی

کبھی کبھار ایسا بھی کوئی لمحہ وارد ہوتا ہے کہ آپ زندہ تو ہوتے ہیں، متحرک اور دھڑکن سے بھرپور مگر آپ کی روح جسم سے جدا اوپر فضا میں اڑتی پھرتی ہے۔ آپ اپنا خالی تن لے کر سارے فرائض ادا کر رہے ہوتے ہیں۔ پلٹ کر دیکھتے بھی ہیں۔ دل کی جانب بھی نظر کرتے ہیں مگر روح جسم میں نہیں پاتے۔ ادھر آپکی روح فضا میں معلق آپکے اردگرد طواف کرتی ہے، ٹہوکے دے دے کر وجود کو حیرت سے تکتی ہے پر وائے حسرت کہ جواب ندارد۔
سارا دن ایسے کاموں میں گزرتا ہے۔ کامیابی بھی ملتی ہے اور ستائش بھی مگر اندر کا باسی من کا پنجرہ سونا کر گیا ہوتا ہے۔
ایسے میں ہم زندہ لاشیں بن جاتے ہیں۔ کسی بہترین پروگرام پر چلنے والے روبوٹ کی طرح۔ چلتی پھرتی زندہ لاشیں۔
تھک جاتے ہیں جسم کا بوجھ اٹھائےاٹھائے۔ روح ساتھ رہے تو کچھ بوجھ بانٹ لے۔ یہ مٹی کا پتلا اپنے کیے کو روتے روتے خود کو ندامت کے آنسوؤں سے یوں گیلا کر لیتا ہے کہ اول اول بوجھل ہوتا ہے پھر ٹوٹنے لگتا ہے۔
بولنے کو نہ تو جی کرتا ہے اور نہ ہی کوئی فائدہ ہوتا ہے۔ لوہے جیسے دل والے لوگوں کی دنیا میں سوچ پتھر جیسی ہے۔ بلبل پہاڑ کی خاطر گر تمام عمر بھی نغمہ سرا رہے تو لاحاصل۔ دونوں کی تخلیق میں فرق ہے۔
ایسے ہی کچھ لوگ اس دنیا میں آزمائش کو ملا دیے جاتے ہیں۔
ایک ہر مصیبت میں گھنے پیڑ سا اور دوجا جلتا آتش فشاں۔ ایک پھل، گھر اور زندگی بانٹتا اور دوجا سراپا آگ اور دشمن جاں۔
درخت بھی جل جاتے ہیں، بلبلیں مر جاتی ہیں، دریا سوکھ جاتے ہیں اور پھر روحیں ہواوں میں مصلوب حسرت سے ان سینوں کو تکتی ہیں جو کبھی ان کا مسکن تھے۔
بھلا ہو سورج کا جو ان تارتار جسموں پر اپنی کرنیں نچھاور کرتا ہے۔
اگر آپ بھی کسی ایسے دور سے گزر رہے ہیں تو اردگرد نظر دوڑائیے۔ آپ کا سورج بھی آپ پر اپنا سونا نچھاور کر رہا ہے۔ آپ کا ٹوٹ پھوٹا وجود سہلا رہا ہے۔ بند ہوتے دل کو اپنے مہربان ہاتھوں میں لیے سینے سے لگائے بیٹھا ہے۔ ایک نہ ایک شخص ایساضرور ہو گا جو آپکے حصے کا سورج بن کر آئے گا۔
اندھیرا جتنا بھیانک ہے اتنا ہی کمزور بھی۔ ایک ننھی سی مسکراہٹ کی کرن اسے برباد کرنے کی پوری طاقت رکھتی ہے۔
اپنی معلق روح کو محبت سے ہاتھ بڑھا کر گلے سے لگائیے۔ دلاسہ دیجیے۔ اور اگر کوئی نظر نہیں آتا تو یاد رکھیے جس کا کوئی نہیں اس کا وارث اللہ ہے۔ وہ جس سے محبت کر لے اسے تنہائی کا تحفہ ودیعت کرتا ہے اور پھر اس کی کل کائنات بن جاتا ہے۔ ساری باتیں کہہ دیجیے، ساری شکایتیں اس کے دربار میں لکھواآئیے۔ وہ بھولے گا نہیں اور نہ ہی اپنے بندے کا بدلہ لینے سے چوکے گا۔ اس نے اپنی کتاب میں کہا ہے کہ تیرا رب بھولنے والا نہیں۔ زندگی کا جام تلخ ہے مگر فقط ایک گھونٹ ہی ہے۔
رنج مت کیجیے، غم کی چادر کو امید کے سورج کی کرنوں میں بہا آئیے۔
میرے حصے کا سورج آج میرے گھر چمکا تھا۔ اللہ آپ کا سورج بھی آپ کو بھیجے گا، دروازہ بند مت کیجیے۔ اللہ آپ کا حامی و ناصر ہو۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں