کالم نویس/اعجاز احمد طاہر اعوان
ہر سال پاکستان اور دنیا بھر میں 14 نومبر کو “”ذیابیطس کا عالمی دن”” منایا جاتا ہے۔ دیگر مسائل کے ساتھ ساتھ ذیابیطس “” DIABIATIC”” بھی ایک بڑی بیماری کی صورت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ اور اس سے پیدا ہونے والی پیچیدگیوں سے ملک تیزی کے ساتھ زندگی اور موت کی آغوش کی طرف جا رہا ہے۔ اگر اس بڑھتے ہوئے مرض پا قابو پانے کی طرف توجہ نہ دی گئی تو پاکدتان سال 2025 تک اس مرض میں مبتلا افراد کی تعداد 40 کروڑ سے بھی تجاوز کر جائے گئی۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق اس وقت پاکستان کے اندر سالانہ ذیابیطس کے مریضوں کی بر وقت علاج معالجہ نہ ہونے کی وجہ سے اس مرض کا بڑھتا ہوا گراف بلندی کی طرف بڑھ رہا ہے۔ احتیاطی تدابیر کا استعمال نہ کرنے کی وجہ سے آج سے تقریبا” 10 سال قبل پاکستان ذیابیطس کا مرض میں آٹھویں نمبر پر تھا۔ احتیاط نہ کرنے کی وجہ سے مزید مسائل اور علاج کے پیچیدگی کے بھنور میں پھنس جائے گا۔ عالمی ادارہ صحت کی رپورٹ کے مطابق ذیابیطس سے متاثرہ ممالک میں ہندوستان سر فہرست کی لسٹ میں آ گیا ہے۔ جہاں سال 2007 کے آخر تک 4 کروڑ 90 لاکھ افراد اس خطرناک مرض میں مبتلا ہو چکے تھے۔
ذیابیطس دنیا بھر میں ہونے والی اموات کی چوتھی بڑی وجہ ہے۔ جہاں یہ دوسری بیماریوں کا بھی سبب بن رہا ہے۔ وہیں گردوں کے فیل ہونے کی بھی بڑی وجہ ہے۔ گزشتہ چند سالوں کے دوران 50 فیصد سے زائد گردوں کے فیل ہو جانے والے کیسز کی وجہ بھی ذیابیطس ہے۔
اس وقت پاکستان کی 45% آبادی ذیابیطس کے خطرناک مرض میں مبتلا ہو چکی ہے۔ اس مرض کی وجہ سے آنکھوں کی بینائی بھی شدید طور پر متاثر ہو رہی ہے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق ذیابیطس کے مرض سے 50 فیصد سے زائد مریض اس بیماری سے بے خبر ہی رہتے ہیں اور بیماری کے آخر پر جا کر انہیں اس بات کا علم ہوتا ہے کہ وہ ذیابیطس کے مرض کا شکار ہو چکے ہیں۔۔۔!