پرندے آزاد ہیں
اب کے طوفاں نے
ان کے قفس جلا ڈالے
صیاد کے جال
ہوا لے اڑی
تم سمجھتے ہو
ان کا رزق تم دیتے ہو؟
وہ تو رب کا وعدہ ہے
زنداں کے بند ٹوٹے
تو کئی جہاں ان کی اڑان تلے
آجائیں گے
تم سمجھتے ہو!
تم چھت کھینچ لو گے تو
آسماں بھی رب سمیٹ لے گا کیا؟
یہ وہ پرندے تھے
جنہوں نے تیرا گھر سجایا تھا
اپنی کوک سے اس فضا کو مہمیز رکھا
دنیا سے پھول لا کر
مہکتا گلشن بنایا
میرے سامنے کے پہاڑ پر
دیودار جھومتے ہیں
اک دوجے کی گردنوں میں ہاتھوں کی مالا ڈالے
سنیاس لے چکے ہیں
اک اور غول پرندوں کا
قفس چھوڑ گیا ہے
یہ سرور میں ہیں
اس موسم کا ساون
ان کے بے جان پروں کو
پھر سے کھلا گیا ہے
پرندوں کے دل
مشک نافہ کی مانند
مہک رہے ہیں
آزادی
اتنے مسلسل خوف اور
ظلم کے بعد
ایک تازہ ہوا کا گھونٹ امرت ہے
پرندوں کے پروں پر
بارش کی شبنم
موتیوں کی لڑیاں
برسا رہی ہے
آزادی کا جشن جاری ہے
ہاں خون تو بہے گا
شکرگزاری میں
صدقہ لازم ہے
ہاں یہ تو ہے کہ
قفس کے ساتھ کچھ
گھونسلوں کو جلنا ہو گا
صبر کی بجلی
جب ظالم پر گرتی ہے
تب
یوم حساب کا کچھ حصہ
اسے اسی جہاں میں
ودیعت ہوتا ہے
کیا معلوم
ہم تم میں سے یہ کس کو
حصہ ملا ہے؟
جب جدا ہونا ہی تھا
تو
ڈر کیسا؟
رونا کیونکر؟
دیودار رو رہے ہیں
ان کے ہاتھ میرے کاندھوں کو
سہلا رہے ہیں
مگر
میں تو روتی نہیں ہوں
سنگ مرمر کا تخت
بے جان آنکھیں لیے
آسماں کو تکتا ہے
آخر کیا ہے ادھر!!!!
کوئی اپنا؟
جو دل کے ٹوٹنے پر بہت یاد آتا ہے
بارش برستی جا رہی ہے
بادل روتا کیوں ہے؟
جبکہ
میں تو روتی نہیں ہوں
دیودار اپنا سر بادل سے ٹکائے
روتے جارہے ہیں
یہ ان کو کیا ہوا ہے؟
پنچھی تو آزاد ہوئے ہیں
گھر جلانا ضروری تھا
یہاں سے جانا ضروری تھا
نمیرہ محسن نومبر 2023
339