my voice 87

کراچی کی شاہراہوں پر مین ہول کے ڈھکن چوری ہونے کا سلسلہ تھم نہ سکا!!! بلدیہ عظمی کے افسران اور عملہ خواب غفلت کی گہری آغوش میں مدہوش

کراچی کی شاہراہوں پر مین ہول کے ڈھکن چوری ہونے کا سلسلہ تھم نہ سکا!!! بلدیہ عظمی کے افسران اور عملہ خواب غفلت کی گہری آغوش میں مدہوش

کالم نویس/اعجاز احمد طاہر اعوان

کراچی میں شاہراہوں، گلی محلوں اور سڑکوں پر “”کھلے مین ہول”” سے زندگیوں کے چراغ دن دھاڑے گل ہونے لگے، بلدیہ عظمی خواب غفلت کی گہری نیند میں! انتظامیہ کی بے حسی اور غیر ذمہ داری کے باعث کھلے مین ہول کے ڈھکن چوری ہونے لگے، اور چوری کا سلسلہ ابھی تک تھم نہیں سکا۔ اب تک ہزاروں قیمتی جانیں موت کی آغوش میں جا چکی ہیں۔ مگر اب تک ڈھکنوں کی چوری اور ڈھکن چور مافیا کے خلاف کوئی فوری اقدام نہیں اٹھایا جا سکا اور نہ ہی کوئی حفاظتی اقدامات کا انتظام ہی سامنے آ سکا ہے؟ کھلے میں ہول کے باعث کئی حادثات رونما ہونے سے کئی افراد شدید زخمی بھی ہو چکے ہیں۔ آخر ان کھلے میں ہول کے اندر بلدیہ عظمی کے ذمہ داران، ملازمین اور افسران کے بچے کیوں نہیں گرتے؟ یہ کھلے میں ہول میں بیچارے غریب گھرانوں کے افراد ہی کیوں گرتے ہیں؟ مین ہول سے ڈھکن کی چوری کا سلسلہ گزشتہ کئی سالوں سے جاری و ساری ہے، مگر اس کے تدارک کے لئے بلدیہ عظمی مسلسل اپنی آنکھیں بند کئے ہوئے ہے اور مزید لوگوں کے مرنے کی منتظر نظر آ رہی ہے؟ ڈھکن چوری کرنے والا مافیا اور منظم گروہ دن دھاڑے ڈھکن کی چوری میں ملوث ہے مگر اب تک کوئی ان کے خلاف کوئی مثبت اور سخت اقدام اٹھانے میں مسلسل خاموشی ہے ؟ کبھی کبھی تو یوں لگتا ہے کہ ڈھکن چوری کے اس دھندے میں بلدیہ عظمی کا عملہ بھی ملوث ہے؟ جن کی آشیر وار سے یہ سلسلہ ابھی تک تھم نہیں سکا، شہریوں کی جانب سے کئی بار بلدیہ عظمی کے افسران کی توجہ دلائی جا چکی ہے مگر ان کے کان پر ابھی تک جوں تک نہیں رینگ سکی؟ اور بلدیہ عظمی ڈھکنے چوری ہونے کے بڑھتے ہوئے واقعات پر کوئی عملی اقدام نہیں اٹھایا جا سکا؟ گلستان جوہر کے اردگرد کے علاقوں میں کئی نجی اسکول قائم ہیں جس کے اردگرد کھلے میں ہول با کثرت دیکھے جا سکتے ہیں مگر عدم توجہی کا یہ کھلا ثبوت ہے کہ کبھی ادھر توجہ نہیں دی جا سکی اور شائد کسی بڑھے حادثہ کے رونما ہونے کا انتظار ہے؟ ڈھکن چوری کرنے والے مافیا کے خلاف آج تک کوئی اقدام اور آپریشن کا آغاز نہیں کیا جا سکا جس کے باعث ہر روز ایسے سانحات کا رونما ہونا آئے روز کا معمول بن چکا ہے۔ عوام کی زندگیوں کو محفوظ کرنے کے لئے کھلے مین ہول پر ایسے محفوظ ڈھکن لگائے جائیں کہ ان کو محفوظ بنانے کے لئے لوھے کے ڈھکن ویلڈنگ سے اور چوری کے سلسلہ کو روکا جائے۔ آخر یہ مقام افسوس بھی ہے کہ ان
کھلے میں ہول کے اندر بلدیہ عظمی کے گھر والے اور بچے کیوں نہیں گرتے؟ یہ غریبوں کی ہی زندگیاں کیوں نشانہ بنتی ہیں۔ اس دھندے میں ملوث مافیا کے خلاف فوری طور پر سخت قانون بنا کر انہیں سخت سے سخت سزا دی جائے۔ اور ڈھکن چوری کرنے والوں کو “”نشان عبرت”” بنانے کے لئے قانون کے اندر بھی ترمیم کر کے کوئی پالیسی اور قانون سازی کا اعلان کیا جائے۔ اب نوبت یہاں تک آ گئی ہے کہ یہ کھلے مین ہول شہریوں کے لئے موت کے کنویں بن کر رہ گئے ہیں۔ مگر ابھی تک کوئی حفاظتی انتظام سامنے نہیں آ سکا؟ کیا یہ سلسلہ یوں ہی چلتا رہے گا؟ بلدیہ عظمی لاکھوں تنخواہوں کے حصول کے باوجود اپنی غیر ذمہ داریوں کے سلسلہ کو جاری رکھے ہوئے ہے۔ موجودہ میں ہول کی بجائے لوھے کے محفوظ لوھے کے تالے والے ڈھکن لگائے جائیں تاکہ لوگوں کی قیمتی جانوں کے بڑھتے ہوئے ضیاع کو روکا جا سکے۔۔۔!!!

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں