Commemorative event of "Iqbal Day" organized by "Takhil Adabi Forum 72

“”تخیل ادبی فورم ریاض”” کے زیر اہتمام “اقبال ڈے”” کی یادگار تقریب

خصوصی رپورٹ/اعجاز احمد طاہر اعوان
تصاویر/ولید اعجاز اعوان

سعودی عرب الریاض کی معروف ادبی تنظیم تخیل ادبی فورم کے زیر اہتمام یوم اقبال کے حوالے سے ایک منفرد تقریب کا اہتمام کیا گیا جس میں فکر اقبال اور اقبال کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں پر گفتگو کا انعقاد اور بعدازاں ایک مشاعرے کا اہتمام تھا، تقریب کے مہمان خصوصی پاکستان سے خصوصی طور پر تشریف لائے معروف سکالر ، ٹرینر اور موٹویشنل سپیکر قاسم علی شاہ تھے، تقریب کی صدارت تخیل ادبی فورم کے سرپرست اعلیٰ منصور محبوب نے کی جبکہ نظامت کے فرائض تخیل ادبی فورم کے جنرل سیکرٹری راشد محمود نے انجام دئے، اس تقریب کی خاص بات یہ تھی کہ یوم اقبال پر علامہ اقبال کے حوالے سے تقاریر کی بجائے ان کی شخصیت کی مختف جہتوں پر ایک مفصل مکالمہ کا اہتمام کیا گیا جس میں سعودی عرب میں مقیم پاکستان اور بھارت کے معروف دانشوروں نے مفصل اور مدلل گفتگو کی ، اس گفتگو میں بھارت سے تشریف لائے معروف سکالر اور ماہر اقبالیات نعیم جاوید، جماعت اسلامی کے رہنما رانا عمر فاروق، پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما خالد اکرم رانا، پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما احسن عباسی اور معروف ماہرین تعلیم پروفیسر عظمت اللہ بھٹہ اور پروفیسر گوہر رفیق نے اپنے خیالات کا اظہار کیا اور سامعین اور ناظم تقریب کے سوالات کے مفصل اور مدلل جوابات دئے ۔
تقریب سے خصوصی خطاب کرتے ہوئے قاسم علی شاہ نے تخیل ادبی فورم اور انتظامیہ کا شکریہ ادا کیا اور اقبال کے افکار اور عہد حاضر میں فکر اقبال کی ضرورت پر زور دیا ، قاسم علی شاہ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ عمومی طور پر علامہ اقبال کی صرف ایک جہت پر بات کی جاتی ہے جبکہ ان کی شخصیت اور فکر کے کئی دورے پہلو ہیں جن پر کام کی ضرورت ہے اور نوجوانوں کو چاہئے کہ ان افکار پر مطالعہ کریں اور اقبال کے نظریات کو عہد حاضر کے تقاضوں کے آئنے میں سمجھنے کی کوشش کریں ۔
تقریب سے خطاب کرتے ہوئے تخیل ادبی فورم کے جنرل سیکرٹری راشد محمود نے کہا کہ آج کا المیہ یہ ہے عام پڑھا لکھا نوجوان بھی علامہ اقبال کو محض ایک قومی شاعر اور پاکستان کا خواب دیکھنے والی شخصیت سے زیادہ نہیں جانتا اور اس امر کی ضرورت ہے کہ اقبال کے حوالے سے تقاریب میں مقالے پڑھنے کی بجائے علامہ اقبال پر گفتگو کی مجالس اور مکالمے کا اہتمام کیا جائے اور ان حالات کا جائزہ لیا جائے جن کے تحت اقبال کی فکر پروان چڑھی،
گفتگو میں حصہ لیتے ہوئے بھارت کے معروف دانشور شاعر اور ادیب نعیم جاوید نے اقبال کے حسن تکلم، اسلوب اور فکری شاعری اساس اور مقصدیت پر تفصیلی روشنی ڈالی، پروفیسر عظمت اللہ بھٹہ نے اقبال کے تعلیمی نظریات روایتی طریقہ تعلیم اور لارڈ میکالے کے نظام تعلیم پر اقبال کے تحفظات پر گفتگو کی ، رانا عمر فاروق نے گفتگو کرتے ہوئے ان معیارات کا تعین کیا جن تحت کسی ادیب اور شاعر کو کسی دوسرے ادیب اور شاعر سے موازانہ کیا جاتا ہے ان نے دلائل دئے کہ اقبال فارسی کے فردوسی، انگریزی کے ملٹن، ہندی کے کالی داس اور کبیر سے بڑے شاعر ہیں ، رانا خالد اکرم نے علامہ اقبال کے سیاسی کردار اور ان کی سیاسی فکر کے ارتقا پر روشنی ڈالی اور اقبال کے سیاسی فکر ی ارتقا کے پچیس برسوں پر گفتگو کرتے ہوئے ان حالات کا جائزہ لیا جنہوں نے اقبال کو خطبہ الہ آباد میں مسلمانان ہند کے لئے ایک الگ وطن کا خاکہ تراشنے پر مائل کیا، پروفیسر گوہر رفیق نے غالب کے تصور انا کو اقبال کے خیال فوق انا اور خود شناسی سے خودی تک کے سفر پر گفتگو کی اور تصور انا خود شناسی اور اقبال کے نظریہ خودی پر مفصل گفتگو کی اور سامعین کے سوالات کے جواب دئے، احسن عباسی نے اقبال اور دیگر مشاہیر کے نظریات پر گفتگو کرتے ہوئے دیگر فلاسفہ کارل مارکس، نطشے ، برگساں اور کارلائل کے نظریات اور ان کے اقبال پر اثرات پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ ممکن ہی نہیں کہ ایک بڑا آدمی کسی دوسرے بڑے آدمی کے نظریات سے متاثر نہ ہو، گفتگو کرتے ہوئے احسن عباسی نے اس بات پر زور دیا کہ اقبال کا متوازی مطالعہ ہی اقبال کو بہتر انداز میں سمجھنے میں مدد گار ثابت ہو سکتا ہے۔
تقریب کے آخر میں صدارت خطاب میں صدر مجلس منصور محبوب نے اقبال کے خطبہ الہ آباد پر روشنی ڈالی اور ان نکات کو بیان کیا جو اقبال کے خطبہ الہ آباد کی اساس بنے ، منصور محبوب نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آج اس بات کی ضرورت ہے کہ اقبال کی شاعری کے علاوہ ان کے دیگر مشاہیر کے نام خطوط اور ان کے سیاسی خطبات کا مطالعہ کیا جائے اور ان کے خطوط اور خطبات کو ہمارے نظام تعلیم میں نصاب کا حصہ ہونا چاہئے تا کہ اقبال کے نظریہ معاشرت، نظریہ اسلام و امت اور نظریہ معشیت کو سمجھا جا سکے۔
تقریب کے دوسرے حصے میں ایک خوبصورت مشاعرے کا اہتمام کیا گیا جس میں شہر الریاض کے معروف شعرا نے اپنے کلام سے سامعین کو محظوظ کیا، مشاعرے میں کلام پیش کرنے والوں میں یاسر عرفات، منیب عباسی، کامران ملک، ذیشان ناشر، شہباز صادق، پیر اسد کمال، شاہد ریاض، منظر ہمدانی، فیصل اکرم گیلانی، شجاع شاد، سہیل اقبال، شاہد خیالوی، سلیم کاوش، منصور کاوش اور صابر امانی نے اپنے کلام سے خوب داد وصول کی۔
تقریب کے آخر میں ناظم تقریب راشد محمود نے سامعین اور شرکا مجلس کا شکریہ ادا کیا ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں