146

لمز یونیورسٹی (محمد امانت اللہ جدہ)

لمز یونیورسٹی
محمد امانت اللہ جدہ

نگراں وزیراعظم اپنے پروگرام کے تحت لمز یونیورسٹی کے طلباء اور طالبات سے خطاب کرنے پچاس منٹ دیر سے تشریف لائے۔
ہماری اشرفیہ کا یہی دستور رہا ھے
وقت کی پابندی اس لیے نہیں کرتے ہیں کہ لوگ انکا انتظار کریں۔

لوگوں کو انتظار کروا کر نہ صرف لطف اندوز ہوتے ہیں بلکہ اپنی اہمیت کااحساس دلاتے ہیں۔

کیا خبر تھی اس گھٹن زدہ ماحول میں لمز یونیورسٹی کے ایک طالب علم ہمت اور جرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے نگراں وزیراعظم کو وقت کی اہمیت کا احساس دلا دے گا۔

ویڈیو وائرل ہو گئی قوم نے دیکھا۔

کچھ لوگوں نے اسکی ہمت کی داد دی حق اور سچ کہنے پر اور کچھ لوگوں نے ہمیشہ کی طرح اسکا الزام عمران خان پر ڈال دیا کہ انہوں نے نوجوان نسل کو خراب کر کیا ھے۔

ہمارے اینکر حضرات اکثر مثال دیتے ہوئے نظر آتے ہیں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے کا ۔ ایک عام آدمی نے حاکم وقت سے سوال کیا آپکا کرتہ لمبا کیسے ھے۔ آپکے پاس دو چادریں کہاں سے آئیں۔

جب طالب علم نے سوال کیا آپ دیر سے کیوں آئے ہیں تو سبھوں کو برا لگا اور اس طالب علم کو جرت کیسے ہوئی سوال کرنے کی۔

عقلمند اور دانش مند حضرات کبھی بھی دوسروں کو موقع فراہم نہیں کرتے ہیں کہ کوئی ان پر انگلی اٹھائے

اقتدار پر مسلط افراد خود کو عوام کا خادم نہیں سمجھتے ہیں۔
وہ یہ بھی بھول جاتے ہیں انکی تنخواہ اور مراعات عوام کے ٹیکس کے پیسوں سے ملتی ہیں۔

کچھ دانشوروں نے لمز یونیورسٹی کے بارے میں کہا انکو وہاں کیسی اخلاقی تربیت دی جا رہی۔

شکایت ھے مجھے خدا وندان مکتب سے
جو سبق دے رہے ہیں شاہیں بچوں کا خاک بازی کا

سبھوں کی شکایت کا ایک ہی محور تھا اس طالب علم کو جرت کیسے ہوئی سوال کرنے کی۔
جبکہ اس نے سوال کرتے ہوئے اخلاقی قدروں کا لحاظ رکھا تھا۔
یہ اسکی تربیت کا حصہ تھا۔

پنجاب انتظامیہ ہمیشہ کی طرح شاہ سے زیادہ شاہ کی وفاداری میں لگی ہوئی ھے۔
چار طالب علموں کے گرد گھیرا تنگ کیا جا رہا ھے۔ یونیورسٹی کی انتظامیہ پر دباؤ ڈالا جا رہا ھے انکو
یونیورسٹی سے نکال دیا جائے۔

درحقیقت انتظامیہ مثال قائم کرنا چاہتی ھے، انکو عبرت کا نشان بنانا چاہتی ھے آئندہ اس طرح کا سوال کوئی نہ کرے بلکہ حکمرانوں کی غلامی کرتی رہے۔

جس معاشرے میں آئین اور قانون مفلوج ہو کر رہ جائیں وہاں جنگل کا قانون نافذ عمل ہو جاتا ھے۔

جس کی لاٹھی اسی کی بھینس

پنجاب حکومت طاقت کے نشے میں چور جس پر چاہے ایف آئی آر کاٹ دیتی ھے جسے چاہے اٹھا لیتی ھے
چادر اور چاردیواری کے تقدس کو پامال کرنے میں فخر محسوس کرتی ھے۔
مقدس صرف ایک ہی ھے تمہیں بولنے اور لکھنے کی آزادی میسر نہیں ھے

جو ذہن میں تھا نہ میں کہہ سکا نہ میں لکھ سکا
جو زباں ملی تو کٹی ہوئی جو قلم ملا تو بکا ہوا

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں