my voice 193

میری آواز (کیا مسلم لیگ ن کے قائد میاں محمد نواز شریف 21 اکتوبر کو وطن واپس آ جائیں گئے؟)

میری آواز
کیا مسلم لیگ ن کے قائد میاں محمد نواز شریف 21 اکتوبر
کو وطن واپس آ جائیں گئے؟

کالم نویس/اعجاز احمد طاہر اعوان

پاکستان مسلم لیگ ن کے قائد میاں محمد نواز شریف کی گزشتہ چار سال کی ملک بدری کے بعد وطن واپسی کی
خبریں گردش کر رہی ہیں۔ سیاسی تجزیہ کار اپنے اپنے تجزیوں سے آگاہی کی کوشش بھی کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ ملک کے سیاسی حالات کو دیکھتے ہوئے لگتا تو یہی ہے کہ نواز شریف 21 اکتوبر کو پاکستان واپس آ جائیں گئے۔ کیونکہ عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کو نواز شریف کے خلاف فیصلہ کرانے میں دنیا بھر میں سبکی ہوئی ہے۔ ان گزشتہ چار سالوں کے دوران یہ دونوں ادارے نہ صرف بدنام ہوئے بلکہ انکی ایماندارانہ انصاف کی ساکھ کو بھی شدید نقصان پہنچا۔ نواز شریف کی حکومت ہٹانے کے بعد جو عمران خان کی نئی حکومت قائم کی گئی اس سے اسٹیبلشمنٹ کو بڑی توقعات تھیں لیکن جنرل باجوہ کی یہ توقعات عمران خان اور ان کی ٹیم پوری نہ کر سکی۔ اور الٹا یہ ہوا کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کے ساتھ معاشی نظام بھی بری طرح متاثر ہوا۔ اسٹیبلشمنٹ نے اپنی غلطی کو محسوس کرتے ہوئے نواز شریف کو دوبارہ واپس لانے کی پلاننگ شروع کر دی۔ جس کا نتیجہ عمران خان کے خلاف عدم اعتماد اور “”PDM”” کی حکومت کا قیام تھا۔ میاں شہباز شریف کی۔حکومت نے کسی حد تک یہ ثابت کیا کہ مسلم لیگ ن کی تجربہ کار ٹیم ملک کو بحرانوں سے نکالنے کی اہلیت رکھتی یے۔ ان تمام باتوں کے بعد اسٹیبلشمنٹ نے نواز شریف کو دوبارہ ملک میں واپس لانے ک تہیہ کر لیا۔ نواز شریف کی ملک میں واپسی کو آسان بنانے اور ان کے خلاف تمام سیاسی مقدمات کسی طور پر آسان اور نرم کرنے کی کوشیش شروع کر دیں۔ اس حوالے سے اسٹیبلشمنٹ اور نواز شریف کے درمیان رابطے ہوتے رہے۔ اب یہ بات شدت کے ساتھ محسوس ہونے لگی ہے کہ نون لیگ یہ سمجھنے لگی ہے کہ میاں
نواز شریف کو واپس آنے پر کوئی خاص پریشانی نہی ہو گی۔ اب کیونکہ اسٹیبلشمنٹ کو نواز شریف کے خلاف اقدامات کی کمزوریوں کا احساس ہو گیا تھا۔ لہذا انہوں نے بیماری کی حالت میں نواز شریف کو بیرون
ملک علاج معالجہ کرانے کے لئے “”سہولت کاری”” کی۔ گزشتہ چار سال کے دوران ملک میں سیاسی حالات نے جو کروٹیں بدلیں۔ اس سے نواز شریف کا ایک بار پھر مقبولیت کا راستہ پیدا ہوا۔ پاکستان مسلم لیگ ن ماضی میں پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی جماعت رہی ہے۔ لہذا اب بھی پاکستان مسلم لیگ ن اسی مقام پر کھڑی ہے۔ “”pTI”” کے حصے بخرے ہونے کا زیادہ تر فائدہ بھی ن لیگ کو ہی ہوگا ۔ ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت بھی اس وقت پاکستان مسلم لیگ ن ہی ہے۔ مگر یہ بھی خدشہ سامنے موجود ہے کہ ملک کے اندر ہونے والے عام انتخابات میں اسمبلی کے اندر مسلم لیگ ن دو تہائی اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے گی۔

ملک کے اندر ہونے والے عام انتخابات کو وقت مقررہ ہر کرانے کے بارے اسٹیبلشمنٹ حتمی فیصلہ کر چکی ہے اس لیئے ملک کے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے ملک کے اندر انتخابات میں مزید کسی تاخیر کا کوئی امکان نظر نہی آتا۔ پاکستان کے اندر جمیعت اسلام ایک ایسی سیاسی جماعت ہے جو حکومت سازی میں مسلم لیگ ن کے ساتھ تعاون کر سکتی ہے۔ اگر عمران خان کو اپنے خلاف موجودہ مقدمات میں سزا ہو جاتی ہے تو لازمی طور پر پاکستان تحریک انصاف کے ورکرز کو شدید دھچکا لگے گا۔

اس وقت پاکستانی شدید طور پر مالی اور معاشی سنگینی سے دوچار ہے مگر اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ پاکستان میں مسلم لیگ ن کے پاس معاشی نظام کو کامیابی سے چلانے کے لئے تجربہ کار معاشی ٹیم موجود ہے ۔ اس کے علاوہ نواز شریف کے پاس دیگر معاشی ایکسپرٹ کا تعاون حاصل کرنے کا ہنر بھی موجود ہے۔ اس لیئے میاں نواز شریف وطن واپس آ کر ملک کے معاشی حالات کو بہتر اور کنٹرول کرنے میں بڑی حد تک کامیاب ہو جائیں گئے.

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں