میری آواز
کالم نویس/اعجاز احمد طاہر اعوان
عرب ممالک، بطور خاص سعودی عرب میں پاکستانی بھکاریوں کی تعداد روز بروز بڑھتی جا رہی ہے۔ اس سے نہ صرف پاکستان کی بدنامی بڑھ رہی ہے بلکہ یہاں کام کرنے والے عام پاکستانی اور حقیقی زائرین بھی “”حقارت اور نفرت”” کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔ خصوصا” مکہ مکرمہ خانہ کعبہ اور مدینہ منورہ روضہ رسول کے اردگرد بھکاریوں کی کثرت پاکستانیوں کی ہے۔ یہ بھکاری مختلف طریقوں اور بہانوں سے بھیک مانگتے ہیں۔ کوئی اپنی غربت کا رونا روتا نظر آتا ہے۔ جبکہ کوئی اپنی جیب کٹ جانے کی من گھڑت کہانی سناتا ہے۔ یہ بات باعث حیرانگی ہے یہ لوگ صاحب استطاعت نہ ہونے کے باوجود عمرہ کے لئے کیسے آ جاتے ہیں؟ اور انکی سہولت کاری کون کرتا ہے؟ معلوم ہوا ہے کہ پاکستان میں کچھ ایجنٹس نے اب بھکاریوں کو بھی اسپانسر کر کے سعودی عرب بھیجنے کا دھندہ شروع کر رکھا ہے۔ اور اس دھندہے کے اندر یہ لوگ غریب اور مفلوک الحال لوگوں کو سعودی عرب میں بڑی بڑی بھیک کے خواب دکھا کر لالچ میں مبتلا کر دیتے ہیں۔ ساتھ ہی یہ بھی طے کرتے ہیں کہ ملنے والی بھیک میں ان کا آدھا حصہ ہو گا۔ لوگ اس لالچ اور سہولت کاری کے ذریعے با آسانی یہاں پہنچ جاتے ہیں۔ یہ ایجنٹس ، یہ سوچے بغیر کہ اس میں ملک کو کتنی ذلت اٹھانا پڑتی ہے، بڑے پیمانے پر اپنے کام کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ان بھکاریوں میں اکثر پکڑے جاتے ہیں اور جیلوں میں بند کر دئیے جاتے ہیں۔ جبکہ کچھ غائب ہو جاتے ہیں اور غیر قانونی طور پر رہائش پذیر ہو جاتے ہیں۔ یہ بات بھی پاکستان کے لئے بڑی بدنامی کا باعث ہے۔ سعودی عرب میں رہنے والے محب وطن پاکستانی بڑے کرب میں مبتلا ہیں۔ وہ حکومت پاکستان سے سوال کرتے ہیں کہ آخر یہ بے استطاعت لوگ یہاں کیسے پہنچ جاتے ہیں؟ حکومت کو چاہئے کہ ایسا طریقہ وضع کرے کہ کم از کم ایئرپورٹس پر انکی مالی حیثیت کا صحیح اندازہ کرنے کے بعد ہی ایسے لوگوں کو روانگی کی اجازت دی جائے۔
217