"""ایک شخصیت ایک تعارف"" معروف فن خطاط و مصورہ سعدیہ ظفر 351

ایک شخصیت ایک تعارف (معروف فن خطاط و مصورہ سعدیہ ظفر)

انٹرویو/اعجاز احمد طاہر اعوان
تصاویر/ولید اعجاز اعوان

“”پی این پی PNP”” نیوز چینل کے مستقل سلسلہ “”ایک شخصیت ایک تعارف”” اپنی ترقی کی منازل کو بڑی تیزی کے ساتھ بڑھانے میں اپنا کلیدی کردار ادا کر رہا ہے، آج ہم آپ کی ملاقات شہر کراچی کی معروف فن خطاط و مصورہ سعدیہ ظفر سے کرواتے ہیں جن کو یہ فن ان کے خاندان کی طرف سے ورثہ میں ملا، پاکستان کے مشہور معروف فن خطاط کے ماہر اور اپنا منفرد انداز کی پہچان رکھنے والے سعودیہ ظفر کے نانا نعمت اللہ وامق مرحوم تھے جن کی شاگردی میں سعدیہ ظفر نے فن خطاط کی ابتدائی تعلیم حاصل کی،

سعدیہ ظفر نے اپنا تعارف کرواتے ہوئے کہا کہ میرا تعلق روشنیوں کے شہر کراچی ہے ہے میری پیدائش بھی ایک علمی ادبی، مذہبی اور دینی گھرانے میں ہوئی؟، ہم 2 بہن اور 3 بھائی ہیں گھر میں درجہ بندی کے لحاظ سے میرا بہن بھائیوں میں دوسرا نمبر ہے، ابتدائی تعلیم کراچی سے حاصل کی اور پھر سال 2004 میں ماسٹر ان انگلش لٹریچر میں امتیازی نمبروں سے اعلی ڈگری حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی، سال 2009 کے دوران رشتہ ازدواج کے کچھ عرصے ریاض سعودی عرب آ گئی، اپنے نانا کے فن خطاط اور مصوری سے متاثر ہو کر میرے اندر بھی اس وراثتی فن کو سیکھنے کا شوق پیدا ہو گیا، اور ابتدا میں قلم سے کیونس پر لکھنا؟شروع کیا،

اسلامی خطاطی کی بنیاد بغداد کے تین عظیم خطاطوں کی تخلیقی ذہانت اور خداداد صلاحیتوں کی بدولت رکھی گئی، عباسی دربار کے وزیر اعظم مقلہ 886- 940 ابن ابواب ، اور اماسیہ کے یقوت المستسمی متوفی 1298 ابن مقلہ نے فن خطاطی کے بنیادی اصول بنائے، اور آج تک اسلامی خطوط اس کے تناسب کے نظریے کو “”پیمائش “” کے تین سٹوں کی بنیاد پر ہی استعمال کرتے ہیں، ڈاٹ، الف اور دائرہ اسکرپٹ کے تمام حروف کا رشتہ، “”قلم نب”” کے ذریعے تیار کردہ “”RHOMOBID”” ڈاٹ کی چوڑائی سے طے ہوتا ہے، اس کے بعد حرف “”الف”” کو ایک سیٹ نمبر “”RHOMBOID”” نقطوں کی بنیاد پر تیار کیا جاتا ہے، جس کا تعین اسکرپٹ کی قسم سے کیا جاتا ہے، ایک بار جب حرف “”الف”” بن جاتا ہے تو “”خط”” کے گرد ایک غیر مرئی دائرہ کھینچتا چلا جاتا ہے، “”الف”” کی اونچائی دائرے کا قطر ہے، اس بنیاد پر کام کرتا ہے، جس سے کسی رسم الخط کے تمام حروف کا احسان لگایا جا سکتا ہے،

سعدیہ ظفر نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ اسلامی خطاطی کا باقاعدہ طور پر ظہور اور آغاز ساتویں صدی میں اس وقت ہوا جب قرآن مجید نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا، عربی اسکاکرز، شاعروں اور فنکاروں نے اسلام قبول کیا، اور اپنی صلاحیتوں کو فنکارانہ طور پر خدا کے کلام کو ظاہر کرنے کے لئے استعمال کیا، قرآن اس وقت استعمال ہونے والے “”کوفک عربی، رسم الخط میں لکھا گیا تھا اور بعد میں اسے قرآن کی نقل کرنے کے لئے معیاری انداز کے طور پر مزید فنکارانہ انداز استعمال کرنے کے لئے تیار کیا گیا تھا، اسلامی خطاطی کے انداز میں “”کوفک”” اصل رسم الخط جو پیغمبر اسلام کے زمانے میں استعمال ہوتا تھا “”کرسیو اسٹائل “” جو قرآن اور دیگر
“” NASKH””
دستاویزات کو نقل کرنے کے لئے معیاری انداز بن گیا، نستیلق فارسی انداز، دیوانی عثمانی ترک طرز اور سینی چینی طرز کے طور پر متعارف ہو گیا،

سعدیہ ظفر نے کہا کہ میں نے اپنے شوق کا آغاز لاہور سے “”ڈومیسٹک آرٹ”” سے کیا، اور پھر “”خط ثلث “” سب سے پہلے سیکھا، فن خطاطی میں “”خط کوفی”” سب سے پرانا اور قدیم رسم خطاطی کا اہم حصہ ہے، اب تک میں اپنی زندگی کے فن خطاطی کے یادگار اور شاہکار نمونے 50 سے زائد بنا چکی ہوں، اور مزید نئے خطاطی کے فن کے نمونے تکمیل کے آخری مراحل میں ہیں، میری سب سے یاد گار اور شاہکار پینٹنگ 100×100 سینٹی میٹر کا فن کی بلندیوں کو چھو جانے والا میری زندگی کا شاہکار نمونہ ہے “”آئت الکرسی”” جو میں نے دو ہفتوں کے دوران مکمل کیا اور اس فن پارے کو میں نے 2000 ہزار ریال میں فروخت کیا، میں اپنی خطاطی کے فن پاروں کو دو سے تین ہفتوں کے اندر اندر مکمل کر لیتی ہوں،سال 2022 کے دوران سعودی عرب میں ایک LIVE PAINTING”” کے مقابلہ میں مجھے حصہ لینے کا موقع ملا اور میں واحد پہلی پاکستانی آرٹسٹ تھی ایک ثقافتی دروازے “” کو بنانے کا چیلنج قبول کیا، اس میں میرے سمیت کل 6 دیگر آرٹسٹ تھے اور میں نے اس مقابلہ میں پہلی پوزیشن حاصل کی، اور مجھے 3000 ہزار ریال کا نقد انعام سے نوازا گیا جو میرے اور پاکستان کے لئے بڑے ہی اعزاز کی بات تھی،

سعدیہ ظفر نے مزید بتایا کہ اسی سال نومبر اور دسمبر میں مڈل ایسٹ کے ممالک میں ایگزیشن میں پاکستان کی نمائندگی کرتے ہوئے اپنے شاہکار فن خطاطی کے نمونوں کے ساتھ شرکت کروں گئی، جو میر پیارے پاکستان اور پوری قوم کے لئے بڑے ہی اعزاز اور عزت کا بھی مقام ہو گا، اس کے علاوہ ریاض شہر کے اندر میرے بہت سارے شاگرد بھی ہیں جو باقاعدگی کے ساتھ مجھ سے فن خطاطی اور مصوری کی کلاسز لے رہے ہیں اور تین گھنٹے کی کلاس کے میں ان سے 120 ریال معاوضہ لیتی ہوں، اور میرے نئے شاگردوں کی تعداد میں تیزی کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے، اور میرا بڑا بیٹا بھی اس فن کی طرف راغب ہو رہا ہے،

سعدیہ ظفر نے کہا کہ مجھے فن خطاطی نے میرے رب کریم کے قریب کر دیا ہے، میں جب جب کوئی نئی خطاطی تیار کرتی ہوں میرے اندر اللہ سے محبت اور لگاو کا جذبہ پختگی کو مضبوط کر دیتا ہے، اور اللہ تعالی کی ذاتی اقدس میری تمام مشکلات کا حل بھی نکال دیتی ہے، اور غائب کی مدد سے میرے سارے مسائل خود بخود حل ہو جاتے ہیں، فن خطاطی اور مصوری سے میں اللہ اور رسول اور دیں کی بھی عظیم خدمت کر رہی ہوں، اور آج کے دور میں نئی نسل کو اپنی دیگر تعلیمی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ ادھر آنا بہت ضروری ہے، سفارت خانہ پاکستان کے اندر اس سال 14 اگست کے موقع پر میرے لگائے گئے اسٹال پر بہت زیادہ رسپانس ملا اور میری بہت ساری تیار کردہ پینٹنگ فروخت بھی ہو گئیں، ہماری نئی نسل کو قرآن پاک کو ترجمہ کے ساتھ پڑھنے کی طرف بھی والدین اپنی بھرپور توجہ دیں، میرے خیال کے مطابق “”قلم اور دوات”” کے بغیر فن خطاطی کے “”خط”” میں خوبصورتی اور روانی نہی آتی، دونوں کا طویل دامن کا ساتھ ہے،

سعدیہ ظفر نے اپنی بات کے سلسلہ کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ میری بڑی ہی دلی خواہش ہے کہ دنیا بھر میں قائم سفارت خانوں کے اندر پاکستانی ثقافت اور ملکی خوبصورتی کو اجاگر کرنے پر بھرپور توجہ دی جائے،تاکہ سفارت خانوں کے اندر آنے والے غیر ملکی باشندے بھی توجہ کا مرکز بنیں میری یہ دل کے اندر کی خواہش ابھی رہی ہے کہ میں سفارت خانہ کی اندرونی اور بیرونی دیواروں پر قرآنی آیات پر مبنی فن خطاطی کے یادگار نمونے بناوں، اس سلسلہ میں سفیر پاکستان احمد فاروق صاحب سے توجہ کی منتظر ہوں اگر وہ اجازت دیں تو میں یہ کام بڑی ہی خوش قسمتی سے کرنے کے لئے تیار بھی ہوں، میں شدت کے ساتھ سفیر پاکستان احمد فاروق کے اس فیصلہ کی بھی منتظر رہوں گئی، اس کام سے مجھے دلی راحت بھی نصیب ہو گئی اگر سفارت خانہ کے سفیر محترم میری یہ خواہش کو پڑھیں تو کم از کم مجھے ایک بار ضرور یہ موقع دیں،

سعدیہ ظفر نے کہا کہ میں اپنے فن خطاطی میں مزید نکھار پیدا کرنے کے لئے روزانہ کی بنیاد پر دو گھنٹے کام کرتی ہوں اس شوق کے علاوہ میں انسانیت کی بھلائی کے لئے فلاحی کام بھی کرتی ہوں جس سے ضرورت مند اور معاشی مسائل کا شکار افراد کی ہر ممکن کوشش کو تکمیل کے مراحل تک ضرور لے کر جاتی ہوں میری زندگی کا مقصد حیات انسانیت کی بے لوث اور جذبہ انسانیت سے سرشار ہو کر خدمت بھی کرنا ہے،

اپنے انٹرویو کے آخر میں سعدیہ ظفر نے “”PNP”” کی ساری صحافتی ٹیم کا دل سے شکریہ بھی ادا کیا اور خصوصا” اعجاز احمد طاہر اعوان، بیوروچیف “”PNP”” اور خصوصی تصاویر کی یادگار فوٹو گرافی کے فرائض سرانجام دینے والے ان کے صاحبزادے ولید اعجاز اعوان کی کاوشوں کا بھی خصوصی شکریہ کے ساتھ ساتھ “”PNP”” کے ادارہ کی کامیابی اور کامرانی کے کے لیے خصوصی دعا بھی کی، اور اپنی اس خواہش کا اظہار بھی کیا کہ “”ایک شخصیت ایک تعارف”” کے اس سلسلے کو اسی طرح جاری و ساری رکھتے ہوئے مختلف شعبوں کے اندر گراں قدر خدمات سر انجام دینے والی دیگر شخصیات کے خصوصی انٹرویو کو بھی شامل اشاعت بنائیں.

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں