Arrival of Mian Muhammad Nawaz Sharif in Saudi 167

امریکہ ایک سفر از تحریر: عبدالخالق لک

پارٹ ٹو

امریکہ ایک سفر
از تحریر: عبدالخالق لک

جیسے جیسے منزل قریب آ رہی تھی ، میری Excitement بڑھتی چلی جا رہی تھی کہ کیسا ہو گا امریکہ اور امریکی اور اس کا سماج؟ فلموں والا یا خبروں والا ۔؟یہ طلسم ٹوٹے گا یا مزید گہرا ہو گا۔ اس کا فیصلہ تو آنے والے وقت نے کرنا تھا، میں تو بس سوچ سکتا تھا اور اس پررعب دنیا کے بارے میں اندازے ہی لگا سکتا تھا جس نے پوری دنیا کو اپنے آگے لگا رکھا ہے ۔

میرے سفر کی اطلاع ملتے ہی قریبی دوستوں کی کچھ فرمائشیں شروع ہو گئی اور میری طرح آپ کے لیے بھی یہ فرمائشیں حیران کر دینے والی ہوں گی۔کسی نے بھی مہنگے موبائل فونز ،لیب ٹاپ ، ٹیب وغیرہ کی خواہش نہیں ڈالی تھی۔ سب امریکہ میں ساتھ رکھنے ، رہنے کھانے پینے اور وقت گزارنے کیلئے تھیں ۔

اس میں میرا کوئی کمال نہیں تھا بلکہ میرے والد محترم کے حلقہ احباب جو آج تک انکا نام آج بھی احترام اور محبت سے لیتے ہیں اور میرے ساتھ بھی شفقت برتتے ہیں ۔حتی کہ آج بھی ان کے بعض دوست تو انکا ذکر خیر کرتے ہوئے آنکھیں نم کر بیٹھتے ہیں ۔

“انکھاں دی لالی دسدی سی
روۓ تسی وی اور روۓ اسی وی آں ”

امریکہ کے سفر کے حوالے سے میری پہلی قسط چھپنے پر چند دوستوں نے کچھ سوال لکھ بھیجے خاص طور پر پروفیسر حافظ شوکت آف ایچی سن کالج لاھور۔ جنہیں آپ بھی پڑھئیے ،جبکہ میں نے یہ سوچ لیا تھا کہ مشاہدات کے گھوڑے کی باگیں ڈھیلی نہیں پڑنے دینی بلکہ بہترین جملوں کا انتخاب کر کے ہی امریکہ کی نئی نئی جہتیں دریافت کرنی ہیں کہ امریکہ ہالی وڈ میں دکھائے جانے والی عریاں اور نیم عریاں گوریوں اور لطف و انبساط میں ڈوبے ہوئے لوگوں کا ہی ملک نہیں ہے بلکہ یہاں دیکھنے اور سمجھنے کے لیے بہت کچھ ہے۔

میرے دوستو کے سوال کچھ اس نوعیت کے تھے۔۔۔۔

لوگوں میں شعور اور ان کے رہنے سہنے کی تہذیب کیسی ہے؟؟

پولیس کا رویہ اور نظام عدل کیسا ہے؟ پولیس اور عدلیہ سے وابستہ لوگ عام عوام کے ساتھ کس طرح پیش آتے ہیں ؟

کسی بھی حادثہ کی صورت میں لوگوں کا کیسا رویہ ہوتا ہے؟؟

معمولی غلطی پر کیا رد عمل ہوتا ہے ، فوری لڑائی ، دست و گریباں ،گالی گلوچ یا پھر درگزر ؟

بازار اور گلیوں کی صفائی کیسی ہے؟

روڈ پر چھوٹی بڑی ٹریفک کیسے چلتی ہے اور اشاروں پہ کتنا صبر سے کام لیا جاتا ہے؟

مجموعی طور پر سماجی رویے ، انتظامی معاملات ، ٹریفک کی صورتحال کیا ہے ؟

ایک دلارا تو دو قدم آگے بڑھ گیا۔۔۔ کہنے لگا کہ یار یہ بھی دیکھنا کہ پولیس ۔ہسپتال اور ڈسپنسریوں کا نظام کیسا ہے؟

تعلیمی ادارے اور عام سرکاری افسر کا رویہ کیسا ہے ؟

سرکار اور انتظامیہ کے سوال پر تو میں بھی ہنس پڑا کیونکہ اپنے امریکی متر نے کہا تھا کہ کوشش کرنا کہ کبھی کوئی خلاف قانون حرکت نہ کرنا ، یہ امریکہ ہے تیسری دنیا کو کوئی ملک نہیں ہے.

ایک افسوس سا بھی ہوتا ہے کہ ہمارے ہاں لوگوں نے مغربی طرزِ معاشرت یا چمک کو تو اختیار کر لیا مگر سماجی اصول و ضوابط کو اپناتے ہوئے انہیں تکلیف ہوتی ہے ۔ اپنے دیس کے بارے میں سوچتے ہی دل کو کچھ کچھ ھوتا ھے۔ کیپیٹلازم ھی اپنانا ہے تو پورے کا پورے نظام لینا ھوگا۔ آدھا بٹیر اور آدھا تیتر نہیں چلے گا بلکہ ہم نے تو نظام حکومت کو دیسی ککڑ بنا ڈالا ہے.
میں انہیں خیالوں میں مصروف تھا کہ ائیر ہوسٹس کی آواز سماعت ٹکرائی۔۔اعلان کے مطابق ہم کچھ ہی دیر تک نیویارک ائیرپورٹ پر لینڈ کرنے والے ہیں۔جہاز لینڈ ہوا اور جب میں نے سیڑھی پر قدم رکھا تو خوشگوار ہواؤں نے میرا استقبال کیا، جدہ سے نیویارک کی بارہ گھنٹے کی فلائٹ نے تھکا دیا تھا.
اب خوشگوار موسم نے طبعیت میں سرشاری بھر دی اور ہم سب مسافر مسکراتے ہوئے سیڑھیاں اترتے ہوئے ڈیپارچڑ کی طرف بڑھے ۔یہاں ایک اور خوشگواریت نے مجھے متاثر کیا، وہ تھا قطاروں کا ایک ڈسپلن ۔ حتیٰ کہ بوڑھے افراد کے لیے ایک الگ کاؤنٹر تھا ۔ییلو لائن نئے وزٹرز اور گرین لائن ائر سٹاف اور ڈپلومیٹس کیلئے مخصوص ہیں
مزے کی بات لائن وغیرہ سیدھی اور رہنمائی کیلئے سب بوڑھے لوگ ستر سال کے قریب کے تھے امیگریشن سے پہلے لائن بنوا رہے تھے۔ جبکہ امیگریشن پر سب چاکو وچوبند جوان اور رعنا بھی بمع اسلحہ وبارود وہاں کھڑے تھے.
یہاں پر پھر کچھ سوالات کا نیا سلسلہ شروع ہوا
سوال :آپ نے کتنے دن اور کہاں کہاں ٹھہرنا ہے تفصیل دیجیے؟
جواب: پندرہ دن ، یہ دوستوں کے ایڈریسز اور لوکیشن ہے بمع موبائل نمبر۔۔۔انہیں ایک کاغذ تھما دیا جس پر ساری تفصیلات درج تھیں۔۔
دوسرا سوال: آپ کے پاس کتنا کیش ہے؟
جواب: پانچ ہزار کے نزدیک کیش اور مختلف بنک کے کارڈز بھی ہیں؟
تیسرا سوال: اپ کے پاس فوڈ أئٹم ہیں؟
جواب: No
(آب زم زم اور کجھور کے علاوہ میرے پاس تھا بھی کچھ نہیں )
کاؤنٹر پر سوال و جواب کے سلسلے سے فارغ ہو کر جب میں نے باہر کی طرف قدم بڑھائے تو سامنے ہی اپنے مہربان عمران صادق صاحب کو دیکھ کر آدھی تھکاوٹ اتر گئی ۔ کئی دیر تک وہ مجھے سینے سے لگائے کھڑا رہے، مجھے لگا کہ اگر میں نے قہقہہ نہ لگایا تو معانقہ مزید طویل ہو جائے گا.
میرا ہاتھ پکڑے وہ بڑے لاڈ اور پیار کے ساتھ گاڑی کی طرف بڑھے ، ان کے ہاتھوں کی گرفت بتا رہی تھی کہ اگر یہ ہاتھ چھوٹا تو میں کہیں امریکہ کی رنگینیوں میں گم نہ ہو جاؤں
گاڑی اب ائیرپورٹ کی حدود سے باہر نکل رہی تھی اور میرے میزبان مجھے ساتھ ساتھ حلال حرام بھی بتائے جا رہے تھے۔میری نظریں اپنے ساتھ دوڑنے والے مناظر میں بہت کچھ ڈھونڈ رہی تھیں، اتنے بڑے شہر میں ٹریفک اتنے منظم انداز میں رواں دواں تھی کہ امریکی سسٹم اور شہریوں پر رشک آیا ۔ مقررہ سپیڈ سے ہٹ کر آپ گاڑی نہیں چلا سکتے۔ زیبرا کراسنگ پر لازمی رکنا ہے اور ہارن بجانے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا
اب تک امریکہ کا انتہائی خوبصورت تاثر میرے سامنے آ رہا تھا۔ ائیرپورٹ پر ہر عمر کے افراد کے لیے کاؤنٹر سروسز ۔ ویل چیریز سمیت کسی قسم کی اوور چارجنگ نہیں ۔اچھا ٹھہرئیے ۔۔۔۔۔۔ یہاں پر بہت سارے لوگ یہ سمجھ رہے ہوں گے کہ میں شاید امریکہ کو کوئی بہت زیادہ گلیمراس کر کے بیان کر رہا ہوں ۔۔۔۔ تو صاحب جی
یہ ابتدائی تاثرات ہیں ، آگے کیا ہو گا یہ بھی پڑھ لینا میں جو دیکھ رہا ہوں اور سمجھ رہا ہوں وہی بیان کر رہا بغیر کسی لگی لپٹی کے
ہو سکتا ہے کہ اگلے کسے پراؤ میں امریکہ کا کوئی اور چہرہ میرے سامنے آئے ۔۔ مگر مجموعی طور پر امریکہ کے سفر کا آغاز زبردست قسم کے سماجی اور سرکاری نظم و ضبط سے ہوا جس کا مظاہرہ ائیر پورٹ سے لیکر برادرم عمران صادق صاحب کے فلیٹ ۔۔۔۔ پہنچنے تک میں نے دیکھا۔۔۔۔جب ہم نیویارک کے علاقے بروکلین میں پہنچے تو تو گورے لمبی لمبی داڑھی ، سر پر چھوٹی ٹوپی پہنے اور سر جھکاۓ ہوئے ایک بلڈنگ سے نکل رہے.
معلوم ہوا کہ یہ کراچی کی بوری جماعت کے لوگ نہیں ہیں بلکہ یہودی اپنے کلیسا سے نکل رہے ہیں۔ ہمارے ہاں کی طرز پر اشتہار بمع تصویر برائے اجتماعی دعا بھی دیوار پر چسپاں تھے.
بعد میں دوستوں نے بتایا کہ ان میں بھی انتہا پسند اور انتہائ مذہبی قسم کے لوگ پائے جاتے ہیں۔انکا سیاست اور ریاست سے لینا دینا نہیں۔ زیادہ سے زیادہ یہودی النسل کو بڑھانا ہے۔ اٹھارہ سال کی عمر میں بچوں کی شادی کر دیتے ہیں اور ٹارگٹ کم سے کم ساتھ سے اٹھ بچے ہیں۔۔۔ یہاں ایک اور خوشگواری نے میرا استقبال کیا جب پتہ چلا کہ اس علاقہ میں ہی مسلمانوں کی آبادی زیادہ ہے.
جاری ہے………………………………..

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں