نمیرہ محسن 441

برکھا پری شاعرہ : نمیرہ محسن

برکھا پری
دھانی پیرھن میں ملبوس
زلفوں میں آبی جگنو ٹکائے
میرے دروازے پر جھومتے
شفق رنگ گل گھنٹیوں
کے آویزے لینے آئی ہے
موگرے اپنے بارش دھلے
چاند چہرے لیے
پتوں کی گود میں سمٹے بیٹھے ہیں
وہاں دروازے سے کچھ پرے
مٹی اور پانی کی بہتی
دھار کے کنارے
ایک آبی نرگس
تنہا ،گلابی مکھڑا لیے
خود کو برسات کے آئینے میں ڈھونڈ رہا ہے
کچھ بچے کھلکھلا رہے ہیں
ایک چڑیا بھی انگور کی بیل تلے
برکھا کے سنبھلنے کا انتظار کر رہی ہے
ہاں کہیں کسی کی کیتلی سے
چائے بھی ابل کر باہر آئی ہے
میں شاید کچھ بھول رہی ہوں
چینی کی پیالیوں کی
سفید کھنک میری سماعتوں میں اتر رہی ہے
ہوا سرد ہو رہی ہے
مجھے کوئی یاد بھی آرہا ہے
پر تھوڑا بھول بھی رہی ہوں
ایک موتی اس بارش میں
مٹی میں چھپایا تھا
ایک بوڑھا اپنے بچوں کے ساتھ
اپنی جھونپڑی کے تنکے سمیٹ رہا ہے
ہر طرف بادل کا دکھ
سیلاب بن کر بہہ رہا ہے
میرا موتی
اسکی مٹی کی چھت ٹپکتی ہو گی
پھر یا د آیا وہ تو موگرے کے پھولوں کی طرح
اپنا بارش میں دھلا مکھڑا لیے
جنت کے پتوں میں چھپا بیٹھا ہو گا
ادھر نیم کے پیڑ پر
ایک بلبل گا رہا ہے
میرا دل بانسری بن کر
اس کی لے پورے بدن میں برسا رہا ہے
ہدہد نے میٹھا سیب چرالیا ہے
اور میں
برکھا پری کا آبی لبادہ اٹھائے
اس کے بالوں سے
گل بنفشہ چن رہی ہوں
چمن میں خوشبو رقصاں ہے
مروہ ہہک رہا ہے

نمیرہ محسن
جولائی 2023

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں