دولت مند طبقے سے نفرت ، آخر کیوں ؟
از قلم :عبدالخالق لک
23/06/2023
گذشتہ دنوں پاکستان کے حوالے سے عالمی سطح پر دو واقعات رونما ہوئے ایک یونان میں کشتی الٹنے کے حادثہ میں جاں بحق ہونے والے تین سو سے زائد پاکستانی تھے ۔ جو بہتر مستقبل کی تلاش میں غیر قانونی طور پر یورپ میں داخل ہونے کے لیے بحری سفر اختیار کر رہے تھے۔اور دوسرا فی کس ساڑھے سات کروڑ روپے دے کر مشہور غرقاب ہونے والے جہاز ٹائٹینک کا ملبہ دیکھنے کے لیے جانے والے دو کھرب پتی پاکستانی باپ بیٹا۔ یہ خبریں سامنے آتے ہی پاکستان میں سوشل میڈیا پر دو طرح کے ردعمل دیکھنے کو ملے ۔ دونوں ہی انتہا پسندی پر مبنی تھے اور آج تک اور آگے پتہ نہیں کتنے دنوں تک ان واقعات کو بنیاد بنا کر حکومت کو برا بھلا کہا جائے گا اور صاحب استطاعت کی تذلیل کی جائے گی۔
جی ہاں اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ اگر کسی کو پاکستان میں اپنا مستقبل محفوظ نظر نہیں آتا تو وہ باہر کسی دوسرے ملک میں چلا جائے مگر قانونی طور پر ۔ کیونکہ اگر آپ قانونی طور پر کہیں جاتے ہیں تو وہ لوگ آپ کی زمہ داری اٹھاتے ہیں تاہم اگر آپ غیر قانونی طور پر کسی ریاست کا باڈر کراس کرتے ہیں تو وہ ریاست آپ کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کا حق محفوظ رکھتی ہے ۔مگر یہ کشتی یونان کی جس ساحلی پٹی پر ڈوبی وہاں ایسے واقعات ریگولر بنیادوں پر ہو رہے ہیں ۔ تاہم یہ بہت بڑا واقعہ تھا جس کے بعد یونان کے اندر سے آوازیں اٹھیں اور تارکین وطن کے لیے قوانین میں نرمی اختیار کرنے کا کہا گیا۔ فی الحال تو نہ صرف پاکستان بلکہ یونان میں بھی انسانی اسمگلروں کے خلاف کاروائی کا آغاز کر دیا گیا ہے ۔
اس کے بعد دو ایسے رئیس پاکستانی باپ بیٹا بھی سامنے آئے جو اپنا پیسہ خرچ کر کے تاریخ کا حصہ بن جانے والے جہاز ٹائٹینک کا ملبہ دیکھنے کے لیے زیر سمندر سفر پر نکلے تھے۔ وہ یہ رقم کہیں بھی لگا سکتے تھے مگر انہوں نے ایک شوق کی تکمیل کے لیے سفر کیا جو ان کے لیے آخری سفر ثابت ہوا ۔آبدوز کے لاپتہ ہونے کے بعد ایک ایسا ہجوم سامنے آیا جس نے دولت مند طبقے کو نشانہ بنانا شروع کر دیا ۔ سوشل میڈیا پر ایسی ایسی تحریر اور جملہ پڑھنے کو ملا جس نے سوچنے اور یہ سب لکھنے پر مجبور کیا
دیکھیں حادثہ تو ہمیں ہمارے بستر پر بھی پیش آ سکتا ہے ۔ صدیوں سے کہاوت ھے کہ جہاں جان دینے کا لکھا ہوتا ہے بندہ وہاں خود پہنچ جاتا ہے چاہیے وہ کسی لالچ میں آ کر جائے یا پھر کسی شوق کی تکمیل میں مارا جائے۔ جو امر ہونا ہے وہ ہو کر رہے گا ۔بدقسمتی سے آبدوز کی کمپنی اوشین گیٹ کی جانب سے سرکاری اعلان آ چکا ہے کہ آبدوز حادثہ میں ہلاک ہونے والوں میں سیٹھ حسین داؤد کے فرزند شہزادہ داؤد اور پوتا سلمان داؤد شامل ہیں دوسرے کمپنی کے سی ای او اور دو پائلٹ شامل ہیں ۔ اسی طرح یونان میں ڈوبی کشتی کے بارے میں بھی اطلاعات ہیں کہ بہت کم زندہ بچ پاۓ۔
افسوس کا مقام یہ ہے کہ ان کے پیارے ان کا آخری دیدار بھی نہیں کر سکیں گے ۔
یہاں یہ بات بتانا بھی بہت ضروری ہے کہ پاکستان کی بزنس کمیونٹی میں سیٹھ حسین داؤد کا شمار بہترین کاروباری لوگوں میں کیا جاتا ہے ۔ ہزاروں خاندان ان کے ساتھ وابستہ ہیں ۔ مگر کیا کریں کہ سستی اور ترسے ہوئے لوگ جس خوبی میں دوسروں سے آگے نہیں نکل سکتے اُسی خوبی کو برائی کا درجہ دے کر اُس کے خلاف بولنے اور لکھنے لگ جاتے ہیں اور آبدوز کے حادثہ کے بعد کثرت سے اس کا سامنا کرنا پڑا۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ایک پیسہ و امارت پر موقوف نہیں ہے یہاں آپ کو پڑھائی، ڈگری، ہنر، محنت، وراثتی حکومت، بادشاہت، اعلیٰ سرکاری یا فوجی عہدہ، وغیرہ، سب کے خلاف تقریریں کرنے والے مل جائیں گے۔ ہمارے سماج میں غربت کو بطور ایمان سب سے زیادہ گلیمرائز کرنے والا طبقہ بکثرت موجود ہے۔ اس رجحان نے نہ صرف ہڈحرامی بلکہ ہمارے سماج کا ستیاناس کر دیا ہے اور ہمیں سیکڑوں سال پیچھے کر دیا ہے۔
جس طرح داؤد خاندان کو تضحیک، طعن و تشنیع کا استعارہ بنانے کی کوشش ہوئی اس کی مثال سب کے سامنے ھے۔ باپ نے بیٹے کی خواہش پوری کی ھوگی مگر افسوس کہ دونوں ایک حادثے کی نظر ہوئے اور ممکنہ طور پہ ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے سمندر کی گہرائی سے جانب کوچ کیا۔ ہمیں مگر دکھ ہے کہ کوئی پاکستانی اتنا امیر کیسے ہو گیا کہ پانچ لاکھ ڈالر خرچ کر کے بیٹے کو خوش کرنے کیسے چل پڑا۔ داؤد فیملی بورژا خاندان نہیں ہے، بزنس فیملی ہے ریگولر ٹیکس دیتی ہے۔ اور اہم ترین دونوں کسی جرم میں، کسی غیر اخلاقی برائی میں پیسے نہیں اجاڑ رہے تھے بلکہ باپ بیٹا ایک ایڈونچر کر رہے تھے۔ہمارے ہاں دولت داغ ہے جس کے تعاقب میں لوگ رہتے ہیں اور ساتھ ساتھ اسے برا بھلا بھی کہتے ہیں ۔ یہ امیچور رویے ہیں جن کی وجہ دولت مندوں کے خلاف نفرتوں میں اضافے ہی ہؤا ہے حالانکہ دیکھا جائے تو یہ پاکستان کے لیے بڑے فخر کی بات تھی کہ ہمارے پاکستان میں کاروباری طبقے سے اینگرو فیملی کی خوشحال شخصیات آبدوز میں ٹائٹینک کا ملبہ دیکھنے گئیں۔ مگر کیا کہا جائے کہ ہمارے ہاں دوسرے کی کامیابی ہضم نہیں ہوتی ۔ کسی نے صحیح کہا ہے کہ یہ ملک دولے شاہ کے چوہوں کا ملک ہے جہاں صرف وہی سچ ہے جو ہم سوچتے ہیں باقی سب جھوٹ ہے فسانہ ہے اور ہر کامیاب مرد اور عورت نے یہ سب دھوکے اور فریب سے حاصل کیاگویا حق حلال اور محنت سے تو ناممکن ھے
آخر بزنس کمیونٹی کب تک اس نفرت کا بوجھ اٹھائے گی؟ جواب ضرور دیجئے گا ۔