Arrival of Mian Muhammad Nawaz Sharif in Saudi 93

یہ اونٹ آخر کس کروٹ بیٹھے گا ؟ تحریر : عبدالخالق لک

یہ اونٹ آخر کس کروٹ بیٹھے گا ؟
تحریر : عبدالخالق لک

وطن سے دور ہونے کے باوجود ہم جیسے وطن پرستوں کے دل انہیں گلی کوچوں میں دھڑکتے ہیں جنہیں بہت پیچھے چھوڑ کر اپنے۔ عزیزواقارب اور اھل دیہ کے بہتر مستقبل کے لیے ہم نے ہجرت کی تھی۔ دوسری وجہ یہ بھی ھوسکتی ھے۔ ھماری مستقبل میں بھی پاکستانی نیشنلٹی رھنی ھے۔
جب سات سمندر پار زمین پر قدم رکھتے ہیں تو اپنے آبا کے سیاسی نظریات اور مطالعہ بھی ساتھ سفر کرتے ھوۓ ساتھ ھوتے ہیں ۔بغیر کسی لالچ اور طمع کے میں نے خود کو اس اجنبی سرزمین پر صرف پاکستان کاپی نہیں بلکہ اپنی سیاسی جماعت کا بھی سفیر سمجھا۔ پوری امانتداری اور سچائی کے ساتھ اپنی سماجی اور معاشی خدمات حاضر ہیں اور کوشش کی کہ میری کسی بھی حرکت کی وجہ سے میرے ملک ، میرے خاندان اور میری جماعت پر حرف نہ آئے ۔ اپنی تربیت کے عین مطابق ہم نے مخالفین کے ساتھ بھی باہمی رواداری کو فروغ دینے کی کوشش کی کیونکہ دیارِ غیر میں ہم سب خواہ کسی بھی سیاسی جماعت یا فکر سے تعلق رکھتے ہوں اول و آخر صرف پاکستانی ہیں اور یہی ہمارا تعارف ہے ، تھا اور رہے گا ۔

گذشتہ ایک دہائی سے پاکستان کی سیاست میں سرگرم ہونے والی سیاسی جماعتوں نے اپنے کارکنوں کی وہ سیاسی تربیت نہیں کی جو اس سے پہلے ۔ مولانا مودودی ۔ مفتی محمود ۔باچا خان ۔ ذوالفقار علی بھٹو ، بی بی شہید یا پھر میاں محمد نواز شریف نے کی۔ خاص طور پر پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے کارکنوں میں جو تحمل اور بردباری آپ کو نظر آتی ہے اس مگر مجموعی طور پر سیاسی رواداری اور جمہوری اقدار کی آبیاری میں پاکستان کی ان دونوں سیاسی پارٹیوں کا کردار کبھی بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔ مگر جب ہم بات پاکستان تحریک انصاف کی کرتے ہیں تو افسوس کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ اس پارٹی نے اپنے کارکنوں کی سیاسی فکر اور سیاسی بالیدگی پر کوئی توجہ نہیں دی۔ سوشل میڈیا کی کسی بھی سائیڈ پر چلے جائیں آپ ان کی لیڈر شپ کے حوالے سے کوئی بات کر دیں تو پھر جو جاہلانہ رویہ، بدتمیزی اور بدتہذیبی کا مظاہرہ یہ کرتے ہیں ، بندہ شرم سے ڈوب کر مرنے والا ہو جاتا ہے اور آخری آپشن ان کو بلاک کرنے یا پھر اپنی سوشل میڈیا والز کو محدود کرنے والی رہ جاتی ہے ۔

پاکستان میں نو مئی ۲۰۲۳ کو پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نیازی کی گرفتاری پر جو کچھ ہوا اس نے سب کو ہلا کر رکھ دیا ۔ میرے نزدیک کوئی زی رو شخص اس جلاؤ گھیراؤ کی حمایت نہیں کر سکتا۔ اور یہ متشدد رویے صرف ایک سیاسی جماعت کے کردار کو نہیں پورے سماج پر سوالیہ نشان بن گئے ہیں ۔بیرونی دنیا میں پاکستانی پاسپورٹ زیادہ غیر معتبر ہوا ہے، پاکستانی قوم کو متشدد قوم کے طور پر لیا جا رہا ہے ۔ جبکہ اپنی تمام تر سیاسی بصیرت کی بنیاد پر میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ اس طرز عمل کا سب سے زیادہ نقصان خود پی ٹی آئی کو ہوا ہے۔ خاص طور پر کینٹ کے علاقوں میں جو کچھ کیا گیا ہے اور شہداء وطن کی تصاویر اور مجسموں کی جس طرح توہین کی گئی ہے وہ ناقابلِ فراموش واقعات ہیں۔ جب میں یہ سب دیکھ رہا تھا تو زھن میں چل رھا تھا کہ اس کو ایم کیو ایم طرز پر ڈیل کیا جاۓ اور وھی ھونے جارھا ھے۔ مگر سیاسی کارکن کی بھی نادانی ھے کہ شہید تو پورے ملک کا شہید ہوتا ہے ، شہید کا کوئی مسلک نہیں ہوتا، وہ صوبائیت پرستی سے دور ہوتا ہے ، وہ صرف قوم و ملت کا قابلِ فخر اثاثہ ہوتا ہے ۔اس کے ساتھ جو کچھ ہوا اس سے صرف ان کے خاندان ہی نہیں تمام وطن پرست لوگوں کے جذبات مجروح ہوئے۔

اب جبکہ ہر طرف سے مذمت ہو چکی ہے ، بیانات آ چکے ہیں یا آ رہے ہیں ، پی ٹی آئی کے اپنے اندر سے بغاوت جنم لے چکی ہے تو میں یہ سوچ رہا ہوں کہ یہ اونٹ آخر کس کروٹ بیٹھے گا۔؟؟ عدالتیں آخر کب تک عمران خان نیازی کے نخرے اٹھاتے ہوئے اسے مسلسل ریلیف دیں گی آج نہیں تو کل عمران خان نیازی اینڈ کو، کو اپنی کرپشن پر قانون کی بالادستی کا سامنا کرنا ہی پڑے گا ۔ بہت سارے آپشن زیر غور ہیں مگر کیا ہی اچھا ہو کہ ایک تیسرا جمہوری آپشن اختیار کیا جائے۔ جی ہاں بات چیت کا آپشن ، ریاست کے تمام اہم اسیٹک ہولڈرز مل بیٹھیں۔ جس طرح بی بی شہید اور میاں صاحب مل بیٹھے تھے ۔ جمہوریت کی خاطر، پاکستان کی خاطر، عوام کی خاطر ۔

ملک کے موجودہ حالات و واقعات کو دیکھتے ہوئے کئی سیاسی پنڈت ملک میں سیاسی تبدیلیوں کی پیشن گوئیاں کر رہے ہیں اور میری طرح کئی باشعور سیاسی کارکان ایک نئے میثاق جمہوریت کی بابت بات کر رہے ہیں، جس کا مقصد ملک میں سویلین برتری کے ساتھ ساتھ جمہوریت کو ملک میں مضبوط کرنے کا ایک واضح روڈ میپ کی تیاری شامل ہے تاکہ سیاسی عمل اور ‘جمہوریت‘ کے فروغ سے اس ملک کے کروڑوں عوام کو بھی فائدہ ہو۔ جبکہ اس بات پر زیادہ توجہ دی جائے کہ اس نئے میثاق جمہوریت کا محور اس ملک کی دبی ہوئے طبقات ہونے چاہیں، جسے حرف عام میں عوام کہا جاتا ہے۔ یہ میثاق عوامی مسائل کے حل کے لئے ایک واضح پروگرام دے۔ ملک میں آٹھ کروڑ سے زائد افراد غربت کی چکی میں پس رہے ہیں۔ پوسٹ کرونا سے اس تعداد میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ ڈھائی کروڑ کے قریب بچے تعلیم سے محروم ہیں۔ چالیس فیصد سے زائد بچے غذائی قلت کا شکار ہیں۔ اسی فیصد عوام کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں ہے، جس سے ہیپاٹائٹس سمیت کئی امراض نے ان کو گھیرا ہوا ہے۔ سڑسٹھ فیصد عوام کے سروں پر پکی چھت نہیں ہے۔ ایک کروڑ سے زائد بچے جبری مشقت کا شکار ہیں۔ ہزاروں خواتین کو ہر سال غیرت کے نام پر قتل کر دیا جاتا ہے یا جنسی زیادتی کا شکار بنایا جاتا ہے۔ لوگ غربت کی وجہ سے اپنا خون، اپنے گردے اور یہاں تک کے اپنے بچے بھی بیچ رہے ہیں۔ ایک کروڑ سے زائد بھٹہ مزدور اپنے گھرانوں کے ساتھ جدید غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں۔
نئے میثاق جمہوریت میں اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ سیاست پر ادارہ جات اور وڈیرہ جات کی اجارہ داری ختم ہو۔ تاہم سوال وہی کہ کیا ایسا ممکن ہو سکے گا یا کہ خواب ، خواب ہی رہے گا؟؟ تاہم اس کا ایک سادہ سا حل یہ ہے کہ سیاسی جماعتوں میں اندرونی انتخابات ہوں، سیاسی پارٹی کی مرکزی کمیٹی یہ فیصلہ کرے کہ اس کو کونسا سیاسی طرز عمل اختیار کرنا چاہیے اور کس سیاسی مسئلے پر کونسا موقف اختیار کرنا چاہیے۔ تمام جماعتیں خواتین کو آبادی کے تناسب سے سینیٹ اور قومی اسمبلی کی نشستیں دیں اور بلدیاتی اداروں میں بھی خواتین کی نشستیں ان کی آبادی کے تناسب سے ہونی چاہییں۔

میری ذاتی رائے میں اس اونٹ کو کسی کروٹ پر بٹھانے کے لیے ایک اور میثاق جمہوریت کرنے کے لیے یہ ایک بہترین وقت ہے۔ ہم اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتے کہ نیازی ایک گروہ کا سربراہ ہے اور ایک مقبول سیاسی قیادت بھی ہے۔ اس لیے اس بار صرف سیاسی حریف اور حلیف ہی نہیں باقی تمام اسیٹک ہولڈرز بھی شامل ہوں اور یہ وقت کی اہم ترین ضرورت بھی ہے۔مگر وہیں ایک سوچ یہ بھی کہتی ہے کہ

کہانی میں نئے کردار شامل ہو گئے ہیں
نہیں معلوم اب کس ڈھب تماشا ختم ہوگا
کہانی آپ الجھی ہے کہ الجھائی گئی ہے
یہ عقدہ تب کھلے گا جب تماشا ختم ہوگا
اب بھی سنوارنے کیلیے وقت اور مہلت ھے
اب بھی معیشت اور جموریت سنوارنے کیلیے سر جوڑا جاسکتا ھے۔
لیکن یہ علم اٹھاۓ کون؟

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں