372

بچپن ہی سے بہت شوق تھا فوٹو گرافی کا، بہت تصاویر بنائیں۔ جب بھی کہیں جانا ہوتا کیمرہ اور کتاب دونوں میرے ساتھی ہوتے تھے۔

بچپن ہی سے بہت شوق تھا فوٹو گرافی کا، بہت تصاویر بنائیں۔ جب بھی کہیں جانا ہوتا کیمرہ اور کتاب دونوں میرے ساتھی ہوتے تھے۔
بابا کو محکمے کے سرکاری دوروں میں تقریبا پورا پاکستان ہی پھرنا ہوتا تھا تو سرما و گرما کی چھٹیوں میں میری چاندی ہو جاتی تھی۔
بابا کی تین بیٹیوں میں سے میرا ہی انتخاب ہوتا ساتھ جانے کے لیے اور اس میں بنیادی وجہ میرا بے خوف اور سمجھدار ہونا( والدین کے خیال میں) تھا۔
اس پہ طرہ یہ کہ والد محترم شکاری بھی تھے اور میں اس مشغلے میں بھی ان کی شاگرد تھی تو ہم بس پکے یار بنتے گئے۔
بابا غزلیں کہتے، نظاروں سے نظموں کا امرت کشید کرتے اور بندی الفاظ کے موتی ڈائری پر سجاتی جاتی۔
میں نے باباسے کچھ سیکھا اور کم عمری میں شادی کے باعث بہت کچھ نہ سیکھ پائی۔ ستاروں کے راز، سمت کا تعین، وہ راتیں جن میں ستارے گہناتے ہیں، کن راتوں میں کونسا ستارہ آسمان کے آنچل پر کہاں دمکتا ہے، پو پھٹنے،صبح صادق اور سویرے میں کیا فرق ہے۔ ہواؤں کے کتنے نام ہیں، بادل کی رنگت کیا پیغام دیتی ہے، مٹی کی بدلتی خوشبو، پرندوں کی نقل و حرکت، ان کا مٹی میں لوٹنا،بولیاں کہتی ہیں۔ پانی کی رنگت سے اس کی گہرائی کیسے ماپتے ہیں، اور میٹھے اور کھاری پانی میں پیراکی کے اصول کیا ہوتے ہیں۔ ندی ، دریا، اور جھیل کا پانی کس غلطی کو معاف نہیں کرتا اور لوگ ڈوب جاتے ہیں۔
مچھلیاں پکڑتے وقت کیوں دم سادھا جاتا ہے یعنی زبان بند رکھی جاتی ہے، کس زمین میں کونسا جانور ملے گا، کس موسم کی کونسی سبزی فائدہ مند ہے، پہاڑوں کی خاموشی اور وقار میں کیا پیغام اترتے ہیں، اللہ سے رازو نیاز کیسے کیا جاتا ہے، جنگلوں بیابانوں میں بسنے والے ان دیکھے ساتھیوں کے بیچ سے کیسے بچ کر اور پروقار طریقے سے رہا اور الوداع ہوا جاتا ہے۔
جھیلوں کی تنہائیاں مسافروں کی راہ کیوں تکتی ہیں۔ جھیل اسقدر خاموش اور اداس کیوں رہتی ہے، کسی سنیاسی کی طرح پہاڑوں کے سینے میں دھونی رمائے جاپ جپتی ہے اور خود کسی سے ملنے کیوں نہیں جاتی، اقبال نے شاہین میں کیا وقار دیکھا، اللہ کے سوا کسی کے آگے سر کیوں نہیں جھکانا، اور کیا کہوں کہ الفاظ شاید ختم ہو جائیں مگر بابا کے قصے نا مکمل رہ جائیں گے۔
بات شروع ہوئی تصویر کشی سے تھی تو اس کو آگے بڑھاتے ہیں۔ بہت دیر نظاروں کو کیمرے میں قید کرنے کی ناکام کوشش کرنے کے بعد یہ عقدہ کھلا کہ جو آنکھ دیکھتی ہے وہ کیمرہ دیکھ نہیں سکتا۔ ہمارے سامنے ایک بھرپور منظر ہوتا ہے اور کیمرہ ایک ٹکڑا منتخب کرتا ہے۔ تبھی سے فوٹوگرافی چھوڑی اور لکھتی گئی۔ مگر اب پھر سے جی کر رہا ہے تو دعا کیجیے گا کہ اس بار کچھ ایسے منظر آپ کی بصارت کی نذر کرپاوں جو ابھی آپ کی نظر سے پوشیدہ ہیں۔
مرنے سے پہلے خالق کی دنیا کو محبت بھری نظر سے دیکھیے، زمین کے دل پر نرمی سے پیر دھریے، دلوں کو سہلائئے،خوش رہئیے، مسکرائیے اور آگے بڑھ جائیے۔
خیر اندیش
نمیرہ محسن
مئی 2023

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں