Arrival of Mian Muhammad Nawaz Sharif in Saudi 147

کیا پاکستان کا مستقبل محفوظ ہے؟ تحریر: مہر عبدالخالق لک

کیا پاکستان کا مستقبل محفوظ ہے؟
تحریر: مہر عبدالخالق لک

پاکستان کو اپنے قیام کے فوری بعد کئی معاشی اور انتظامی مشکلات کا سامنا تھا۔جن میں انفراسٹرکچر ، مہاجرین کی آبادکاری سرفہرست تھی۔ اس کے ساتھ ہی انتظامی امور میں بیوروکریسی کے بڑھتے اثر و رسوخ نے بانیٔ پاکستان محمد علی جناح کے دور ہی سے اقتدار کی کشمکش کا آغاز کیا۔ جس کے بعد محلاتی سازشوں اور بالآخر فوج کی سیاست میں مداخلت کا دروازہ کھلا۔ جبکہ پاکستان اپنی آزادی کے کچھ عرصہ بعد ہی بہت سے اندرونی اور بیرونی مسائل میں گھر گیا ۔ قیام پاکستان کے بعد ابھی مہاجرین کی آبادکاری جاری ہی تھی کے خبر آئی کہ بھارت نے پاکستان کے علاقے کشمیر میں رات و رات اپنی فوج داخل کر دی ہے اور علاقہ پر قبضہ کر لیا ہے۔پھر پاکستانی افواج بھی حرکت میں آئی اور م بھارتی افواج سے علاقےکا کچھ حصہ بازیاب کرانے میں کامیاب ہو گئی تاہم یہ مسئلہ برصغیر کی تقسیم کا نامکمل حصہ ہے جس نے دونوں ممالک کے درمیان اختلافات کی ایک ایسی لیکر کھینچ دی جو تاحال حل نہیں ہو سکی۔ جنگیں ہوئیں ، سرجیکل اسٹرائیک ہوئیں ، بھارت اور پاکستان کے درمیان پانی اور کشمیر ایسے معاملات ہیں جو شاید دونوں حکومتیں ہی حل کرنے میں سنجیدہ نہیں ہیں۔

دوسری جانب اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ پاکستان کے اندرونی معاملات ہمیشہ بحرانوں کا شکار رہے ہیں اور اس میں سب سے اہم کردار ہماری حکومتوں کا ٹوٹنا ، جمہوریت پر بار بار شبِ خون مارنا، قانون کی پامالی، اداروں کی بے جا مداخلت ،ایمرجنسی اور مارشل لاء کا نفاذ اور دستور کی بار بار معطلی بھی ملک کو سنگین حالات سے دوچار کرتی رہی ہے۔ان تمام حالات کو دیکھتے ہوئے اس مسئلے کا واحد حل آئین کی مکمل بالادستی قائم کرنے میں اور پارلیمنٹ کو مضبوط بنانے میں ہے۔ اس کے علاؤہ الیکشن کا انعقاد اور اقتدار کی شفاف منتقلی اور سیاست دانوں کا اپنے سے زیادہ ملک کے لئے مفید اور درست فیصلے کرنا ہے۔ یعنی ریاست کو سیاست اور سیاسی خواہشات پر ترجیح دی جائے تاکہ ریاست اپنے حقیقی مسائل کی جانب توجہ دے سکے جبکہ ایسا ہو نہیں رہا ۔ ایک مخصوص ٹولہ گذشتہ کئی سالوں سے ریاست کو ایک دائرے سے نکلنے نہیں دے رہا وہ ہے سیاسی عدم استحکام ، جو معاشی ناہمواری کا ایک ترین سبب بن رہا ہے ۔

سچ یہی ہے کہ پاکستان دن بدن تاریکی کا شکار ہوتا چلا جا رہا ہے۔ پاکستان اگر حقیقت میں ایک مہذب ریاست کا درجہ حاصل کرنا چاہتا ہے تو اسے اپنے تمام بنیادی مسائل اور محروم طبقات کے مسائل حل کرنا ہوں گے۔ناقدین کا ایک گروہ پاکستان کا اصل مسئلہ اس سرکاری نصاب کو قرار دیتا ہے جو طلبہ کو پڑھایا جاتا ہے جس کے اختتام پر سارا ملبہ دوسروں پر ڈال کر اپنی زمہ داریوں سے سبکدوش ہونا سیکھایا جا رہا ہے ۔جیسے کہ پاکستانی سکولوں میں پانچویں کلاس کی سوشل اسٹڈیز (انگریزی میں) جو بارہ سالہ بچوں کو پڑھائی جاتی ہے اس کا آغاز ہندوئوں اور مسلمانوں میں اختلافات کے ذکر سے ہوتا ہے ۔ متحدہ پاکستان کے حق میں صرف تین جملے لکھے گئے ہیں جن کا اختتام ان الفاظ سے ہوتا ہے ’’بھارت کی مدد سے مشرقی پاکستان الگ ہو گیا‘‘۔ یوں معاملے کی خرابی کے زمہ داروں کا تعین کیے بغیر ہی کتاب خاموش ہو جاتی ہے ۔ جبکہ ریاستوں کے مابین اختلافات ہوتے ہیں مگر ان کو سنجیدگی کے ساتھ سنجیدہ بنیادوں پر حل کیا جائے تو دونوں ممالک میں عام آدمی کی زندگی بہتر بنائی جا سکتی ہے ۔

انہی جھوٹوں پر پاکستان اور پاکستانیوں کو گذشتہ 75 سال سے ہی دھوکہ دیا جا رہا ہے ۔ جن کے مطابق پاکستان زیر زمین خزانوں سے مالا مال ہے بس ہمیں حکمران ہی اچھے نہیں ملے۔ یاد رکھئیے کہ اگر ہمیں حکمران اچھے نہ ملتے تو ایٹم بم نہ بنتا، موٹر ویز کا جال نہ بچھتا ، یونیورسٹیاں اور کالجز نہ بنتے۔رنگ روڈ ، میٹرو بس سروس، بجلی کے منصوبے اور سی پیک جیسے ملکی ترقی کے منصوبے کبھی نہ بنتے ۔ سچ یہ ہے کہ ملک کے مخلصین
کو کبھی سکون سے اور ٹک کر کام کرنے ہی نہیں دیا گیا ۔ جبکہ ہمسایہ ملک میں جہاں ادارے اپنی آئینی حدود میں ہیں وہاں تعلیم اور تعلیمی معیار بہت آگے ہے۔ آپ انڈیا کو آئی ٹی کے میدان میں شکست نہیں دے سکتے۔ انہوں نے محنت کی ہے جسکا نتیجہ دیکھئیے کہ وہاں “Apple” سٹور کھلا۔ دنیا کی بڑی کمپنیوں میں ان کی اجارہ داری ہے۔ہمیں 75 سالوں میں مخالفت اور دشمنی کی ٹوپیاں پہنائی گئیں کہ بھارت ہمارا دشمن ہے اگر ہم نے اپنا اسلحہ خانہ اور میزائل نظام مضبوط نہ رکھا تو یہ یہ ہو جائے گا
وہ ہو جائے گا اور سارا ترقیاتی اور تعلیمی بجٹ اسلحہ خانوں پر لگا دیا۔ جبکہ دوسری جانب ہمارے ہمسائے ممالک نے محنت کی۔

آج بھارت پاکستان سے 75 سال آگے کھڑا ہے۔ اس کے پاس 550 ارب ڈالرز سے زائد خزانے میں پڑے ہیں اور ہمارے پاس اپنے 2 ارب ڈالرز بھی نہیں.وہ IMF کو خیر آباد کہہ چکے اور ہم IMF کے جوتے پالش کر رہے ہیں کہ ہمیں اتنے پیسے دے دو۔ہم چین اور سعودی عرب کے پاس جاتے ہیں کہ بھائیو بھرم رکھ لو۔بھارت نے 18 ممالک سے اپنی كرنسی میں کاروبار شروع کیا ہے اور ہمارا 75 کا نوٹ اپنے ملک میں نہیں چلتا لوگ لینے سے انکاری ہیں ۔ ( سوشل میڈیا کی خبروں سے نکل کر اخبارات پر فوکس کریں تو پتہ چلے کہ فقیر بھی 75 روپے کا نوٹ نہیں لے رہا).وہاں کبھی مارشل لاء نہیں لگا اور ہمارے ہاں کبھی کسی وزیراعظم نے اپنی مدت پوری نہیں کی۔بھارت میں ریاست اہم ہے سیاست نہیں۔ بڑوں کی اولادوں کو معافی نہیں، جرم صرف جرم ہے، حال ہی میں گاندھی فیملی کے سپوتوں کو قانون کی خلاف ورزی بھگتنا پڑی ہے۔ جبکہ ہم کدھر کھڑے ہیں یہ سوچ کر ہی خوف آتا ہے.
خدارا سیاست سے ہٹ کر صرف ریاست کا سوچیں کہ اس کے لیے کیا ضروری ہے کیا نہیں اور ایک بار کھلے دل اور دماغ سے یہ بھی ضرور سوچئیے گا کہ کیا اس دیس کے ساتھ ظلم نہیں ہوا ؟ اسے جاہل اور گنوار رکھ کر۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں