-میری آواز
یکم مئی،،،، محنت کشوں کا عالمی دن، اپنے حقوق کے حصول کی جنگ آج بھی ہنوز جاری ہے؟ مگر اپنے حقوق کے حصول میں بدستور ناکامی سے دوچار،؟ ملک پاکستان اور دنیا بھر کے محنت کشوں کی عظمت اور عظیم جذبے اور جرات کو سلام
کالم نویس/اعجاز احمد طاہر اعوان
یوم مئی، ہر سال پاکستان سمیت دنیا بھر میں مزدوروں کے حقوق اور عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے، مگر محنت کش اپنے حقوق کے حصول کی جنگ تنہا لڑنے ہر مجبور ہے، اور جانے کب تک لڑتا رہے گا، اس وقت محنت کش کا بنیادی مسلہ اس کمر توڑ مہنگائی کے دور میں ایک گھرانے کی پرورش کرنا نا گزار ہو گیا ہے، ماہانہ تنخواہوں اور آمدن اس قدر کم ہے، کہ گزر بس کرنا بھی مشکل ترین ہو کر رہ گیا ہے، محنت کشوں کی زندگی مسائل کی دلدل کا شکار ہو کر رہ گئی ہے، مزدور کی ماہانہ تنخواہ اس قدر کم ہے کہ گھر کی کفالت کرنا بھی کھٹن اور دشوار گزار ہو گیا ہے،
1886 میں امریکہ (شکاگو) محنت کشوں نے اپنی غلامی کے نجات کے حصول کے خلاف زبردست احتجاج کیا، اور ان مزدوروں کے احتجاج کرنے کی پاداش میں بڑی بے رحمی کے ساتھ موت کے گھاٹ اتار دیا گیا، ان مزدوروں کا بنیادی ایک ہی مسلہ تھا کہ مزدوروں کے لئے کام کرنے کے اوقات کار کا تعین آٹھ گھنٹے پر کر دیا جائے، مگر آج ایک طویل عرصہ گزرنے کے باوجود بھی آج بھی یہ اپنے حقوق کے جنگ کی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں، یہ آج حقیقت پر مبنی بھی ہے کہ محنت کشوں کے بنیادی حقوق کی کوششوں کو آج تک تسلیم ہی نہی کیا، اور وہ اپنے حقوق کی جنگ تنہا لڑنے پر مجبور ہے، ہر سال یک مئی کے موقع پر سرکاری سطح پر پاکستان سمیت دنیا بھر کے اندر سرکاری تعطیل کا اعلان تو کر دیا جاتا ہے مگر ان کے بنیادی حقوق کو یکسر فراموش رکھا گیا ہے، باعث افسوسناک پہلو یہ بھی ہے، کہ ایک مزدور اور محنت کش سرکاری تعطیل کے بعد بھی آج بھی اس دن کام کرنے پر مجبور ہے، اس وقت مزدور پیشہ افراد آج بھی اپنے حقوق کے حصول کی جنگ کرنے پر مجبور ہے، اس وقت پاکستان اپنی آبادی کے لحاظ سے دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے، اور پاکستان ایٹمی قوت رکھنے والا دنیا کا واحد اور ساتواں بڑا اسلامی ملک ہے، مگر اس کے باوجود مقام افسوس بھی ہے کہ آج بھی محنت کش اور مزدور عدم توجہی کے باعث مسائل کی دلدل اور بھنور کی گرداب کے اندر پھنسا ہوا ہے، ملک کے اندر مزدوروں کی پالیسی سازی کے اداروں کی نا عاقبت اندیشی کے باعث عدم توجہی سے مسائل کا شکار ہے، حکمرانوں کی نا اہلی اور غلط منصوبہ بندیوں کے باعث غربت، بے روزگاری، اور اس کی کمر توڑ مہنگائی میں مسلسل اضافہ بڑھتا ہی جا رہا ہے، آج بھی ظلم کی یہ انتہا ہے کہ مزدور کے سرکاری اوقات کار سے زبردستی زائد کام لیا جا رہا ہے، اور مزدور 16 گھنٹے تک بغیر اوور ٹائم کام کرنے پر مجبور ہے، وہ اپنے بنیادی حقوق کے لئے کس دروازے پر دستک دے، ملک کے اندر مزدور اور محنت کشوں کے لئے قوانین تو موجود ہیں مگر وہ سب “”آٹے میں نمک کے برابر یے”” اس وقت ملک کے اندر ایک مزدور کی ماہانہ تنخواہ بھی غیر مساوی اور غیر منصفانہ حقوق کے برعکس ہے، اس وقت ایک مزدور کی ماہانہ تنخواہ اس قدر قلیل ہے کہ چھوٹے سے چھوٹے گھرانے کی کفالت کرنا انتہائی مشکل ترین ہو کر رہ گیا ہے،
آج کے دن جن اقدامات کو کرنے کی اشد ضرورت ہے آئیے ایک نظر اس پر ڈالتے ہیں، محنت کشوں اور مزدوروں کی فلاح و بہبود کے لئے ترجیحی بنیادوں پر 8 گھنٹے کی بجائے مزدوری کے لئے اوقات کار کا تعین 6 گھنٹوں پر کیا جائے، مزدور کی موجودہ ماہانہ تنخواہ 25000 کی بجائے 50000 ہزار تک کیا جائے، ملک کے مزدور پیشہ افراد ہی ملک کو اپنی۔محنت سے ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، مزدوروں کو بھی اسمبلیوں تک رسائی کے لئے قانون سازی کی جائے، اور بیرون ممالک بسلسلہ روزگار اوورسیز پاکستانیوں کو بھئ اپنے ووٹ کے استعمال کے حقوق دئے جائیں، ہر سال محنت کش اور مزدور کے سالانہ بجٹ میں نئی بہتری کی پالیسیوں پر عمل درآمد کیا جائے، مزدوروں کے بچوں کو بھی زیور تعلیم سے آراستہ کرنے کے لئے اسکالر شپ کی سہولت دی جائے تاکہ وہ بھی ملک کی ترقی اور خوشحالی کے لئے اپنا کلیدی کردار ادا کر سکیں، لیبر قوانین کے اندر نئی ترامیم کی جائیں، پاکستان کے اندر محنت کش کو بھی اس ملک کی بنیادی سہولتوں سے مزین کیا جائے، مزدوروں کی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کے لئے حکومتی ارکان اقدامات کا اعلان کیا جائے، ملک کے مزدور اور محنت کش کو بھکاری نہ بننے دیا جائے، اور دو وقت کی روٹی بھی با عزت طریقہ سے گراہم کرنے کی نئی پالیسیوں کا اعلان اور اطلاق کیا جائے، ملک کے اندر قدیم لیبر قوانین کا از سرنو جائزہ لیا جائے، یہ مزدور اور محنت کش ملک و قوم کا قیمتی اثاثہ کا مقام رکھتے ہیں جو اپنی محنت اور کاوش سے ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کی صلاحیتیں بھی رکھتے ہیں، محنت کش کی عظمت کو سلام پیش کیا جاتا ہے