“””میری آواز”””
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں،،،،،، !!!!
کالم نویس/اعجاز احمد طاہر اعوان
فلم،اسٹیج، اور ڈرومہ سے منسلک فنکاروں کو ان کی زندگی میں ہی “ایوارڈز” کا اعزاز ملنا چاہئے، ان کی زندگی کے بعد “ایوارڈ” کا ملنا ان کے فن کے ساتھ نا انصافی کے مترادف ہوتا ہے، یہ سب فنکار ہمارے ملکی ثقافت اور ورثہ کا مقام رکھتے ہیں، ایسے لاتعداد فنکار ہیں کہ جن کو ان کے انتقال کے بعد “”ایوارڈ” سے نوازا گیا، فنکاروں کے ساتھ انکی زندگی میں ہی “اعتراف فن” کا صلہ دے دیا جائے تو فنکاروں کے ساتھ انصاف ہو جاتا ہے، اس اقدام اور فیصلہ سے کم از کم فنکاروں کی فنی صلاحیتوں کا بھی اعتراف ہو جاتا ہے اور اس فن سے منسلک فنکاروں کی حوصلہ افزائی بھی ہو جاتی ہے، فنکاروں کی فنی صلاحیتیں کبھی پوشیدہ نہی رہتیں، فنکار کے ساتھ انصاف اسی وقت ہوتا ہے جب فنکار کی اہمیت کا احساس کیا جائے “ایوارڈ صرف اور صرف میرٹ کی بنیاد پر ہی ملتے ہیں مگر کئی بار یہ ایوارڈ سفارش اور کے کہنے پر بھی دے دئے جاتے ہیں، ایک عوامی مقبولیت ہی دراصل ایک فنکار کی فنی صلاحیتوں کو پرکھنے کا ایک پیمانہ ہوتا ہے، اس وقت حقیقی فنکاروں کی صلاحیتوں کو مدنظر رکھ کر ہی اسے “ایوارڈ” دینے کا حقدار تصور کیا جاتا ہے، اپنے فن سے ریٹائرڈ ہونے کے بعد اکثر فنکار معاشی مشکلات کی بھنور میں آ جاتے ہیں، کہ بیماری یا پھر کسی مشکل وقت میں اپنے علاج معالجہ سے بھی دوچار ہو جاتے ہیں، مگر وہ اپنی مالی مدد سور تعاون کے لئے کسی کے آگے اپ ی خود داری کے باعث ہاتھ نہی اٹھاتے، ایسے مالی مشکلات کے دن بھی انکی زندگی می آ جاتے ہیں، کہ وہ کدی کے آگے ہاتھ پھیلانے پر بھی مجبور ہو جاتے ہیں، حالانکہ یہ ہونا چاہئے کہ ایسے پریشان اور مشکلات کا باعث ہونے والے فنکاروں کی مالی معاونت کے لئے ان کے لئے فلاحی ادارے ترجیحی بنیادوں پر کھولیں، اور نوبت یہاں تک ش جاتی ہے کہ وہ اپنی غربت اور بیماری سے لڑتے لڑتے زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں، اور حکومتی سطح پر تو فنکاروں کو بھی سنگ دلا اور معاشرے کے بے رحم افراد کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جاتا ہے، فنکار کی زندگی کے آخری ایام کے وقت ہی حکومت وقت کو ہوش میں آنے کا خیال آتا ہے،ایسے مجبور اور بے بسی کا شکار فنکاروں کی مالی مدد کرنا بھی کار ثواب ہے، اس وقت فن گائیکی اور دنیا بھر میں اپنے فن کو پھلانے والے فنکاروں کی بہتری کے لئے فلاحی ادارے کھولے جائیں، جہاں سے ان کی مالی مدد اور معاونت کی جائے، معروف فنکار اور اداکار ضیاء محی الدین کی فنی صلاحیتوں کے اعتراف میں حال ہی میں گلستان جوہر چورنگی پر تعمیر ہونے والے “”اوور فلائی برج”” کو انکے نام سے منصوب کر دیا گیا ہے، ان کی عمر وفات کے وقت 90 سال سے بھی زائد تھی، اگر انکی فنکارانہ صلاحیتوں کو مدنظر رکھا جاتا تو ایسے تمام کام انکی زندگی اور حیات کے اندر ہی کر دینے چاہئے تھے، مگر صد افسوس ایسا نہ ہی کسی نے سوچا اور نہ ہی ہو سکا، اسٹیج کے کنگ آف کامیڈین عمر شریف کو بھی انکی وفات کے بعد یہ اعزاز دیا کہ کراچی کے ہی ایک “تفریحی پارک” کو ان کے نام کے ساتھ جوڑ دیا گیا، یہ سب ہمارے اندر بے حسی کی جیتی جاگتی تصویریں ہیں، جن سب کا ہمارے پاس کوئی جواب ہی نہی ہے، ان سب کی شخصیات اور ان کے فن کے ساتھ یہ انصاف ہے، سوچنا یہ ہے کہ ہمارے اندر کا احساس اور ہمدردی کے رشتے کیوں منوں مٹی کے نیچے دفن ہو گئے ہیں؟؟؟ ہم اپنی ذمہ داریوں کا احساس کب اور کس طرح کریں گئے؟؟ آج کا یہ سوال آپ سب کے لئے چھوڑے جا رہا ہوں،،،، ہمیشہ بہت دیر کر دیتا ہو میں،،،،