کالم نویس/اعجاز احمد طاہر اعوان(تازہ اخبار،پی این پی نیوز ایچ ڈی)
کراچی کا اس وقت ایک اور بنیادی اور سنگین مسلہ کراچی کے معروف اور مصروف ترین علاقوں میں قائم شاپنگ مال تو جگہ جگہ غیر منصوبہ بندی سے قائم کر دیئے گئے ہیں، جس سے ٹریفک کے پیچیدہ مسائل اور حادثات میں بھی تیزی کے ساٹھ اضافہ بڑھتا جا رہا ہے، ہر پارکنگ اور شاپنگ مال کے سامنے فٹ پاتھ کے ساتھ کار پارکنگ اور ماٹر سائیکل کے نام پر کنٹونمنٹ کے اہل کاروں کی ملی بھگت اور مافیا کی سنگینی کے باعث شہریوں کو دن رات زبردستی لوٹا جا رہا ہے، کار پارکنگ 50 روپے سے 100 رعپے اور موٹر سائیکل کے لئے 20 سے 30 روپے وصول کئے جاتے ہیں اور اکثر اوقات پارکنگ کے لئے دی جانے والی پرچی پر مقررہ فیس سے زائد وصول کی جاتی ہے، اور بحث کی تکرار میں اکثر نوبت لڑائی جھگڑے تک پہنچ جاتی ہے، یہ پارکنگ کھ ٹھیکیداروں اور کنٹونمنٹ بورڈ کی بدعنوانیوں کی اور ٹریفک پولیس کی باہمی ملی بھگت سے یہ سلسلہ گزشتہ سالہا سال سے جاری و ساری ہے، اور شہر کے عوام ان سب کے رحم و کرم پر ہیں، کار پارکنگ ٹھیکیداروں کی غنڈہ گردی کے باعث من مانیاں کے آگے عوام ظلم کی چکی میں پھسنے پر مجبور ہیں، اب کراچی کے اندر عوام معصومیت اور بطور سزا کے طور پر اپنی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں، یہ ٹھیکیدار اپنے کار پارکنگ کے لئے روزانہ 300 سو روپے معاوضہ روزانہ کی بنیاد پر دیتے ہیں، ناانصافی کی یہ حد ہے کہ کنٹونمنٹ اور ٹریفک پولیس کی ملی بھگت سے یہ دھندا جاری ہے، اور کوئی انکے خلاف شکایت اور احتجاج کرنے والا نہیں ہےکار پارکنگ کا یہ مافیا ، صدر، طارق روڈ، شارع فیصل، گلشن اقبال، گلستان جوہر، عزیز بھٹی شہید روڈ، کے اردگرد کی عمارتوں کے آگے کے حصوں کو بھی اپنے کنٹرول میں لیا ہوا ہے، اور عمارتوں کے کرایہ دار اور مالکان شدید پریشانی سے بھی دوچار ہیں، کار پارکنگ کے لئے غنڈے ملازم رکھے ہوئے ہیں اور شہریوں کے ساتھ ہر دوسرے روز لڑائی جھگڑے کے واقعات رونما ہوتے ہیں کنٹونمنٹ اور ٹھیکداروں کی ملی بھگت سے اپنے من پسند کے ٹھکیداروں کو پارکنگ کا ٹھیکہ دے دیا جاتا ہے، اندرون شہر میں بنائی جانے والی سپر مارکیٹ کی تعمیر سے قبل پارکنگ کے بغیر نئی بلڈنگ کے لئے پابندی سے کات پارکنگ کے لئے جگہ مختص کی جائے اور پارکنگ کے بغیر بننے والی بلڈنگ کے تعمیراتی نقشوں کو ہرگز پاس نہ کیا جائے.