Is Zulfiqar Ali Bhutto Shaheed still alive in the hearts of people? 233

میری آواز کیا ذوالفقار علی بھٹو شہید آج بھی عوام کے دلوں میں زندہ ہیں

میری آواز
کیا ذوالفقار علی بھٹو شہید آج بھی عوام کے دلوں میں زندہ ہیں
کالم نویس/اعجاز احمد طاہر اعوان

پاکستان کی سیاسی تاریخ کے اوراق کو اگر پلٹ کر دیکھا جائے ، تو تاریخ مختلف حوالوں سے بھری پڑی ہے، مگر تاریخ یہ ہی ہمیں بتاتی ہے کہ تاریخ کے اس طویل سفر کے دوران پاکستان پیپلز پسرٹی کے بانی ایک مدبر اور تجربہ کا سیاست دان پاکستان کو دوبارہ نصیب نہ ہو سکا، وہ ایک سیاست دان ہی نہیں تھے بلکہ ایک مدبر اور ذہین شخصیت اور تجربہ کار بھی تھے، آج ان سے بچھڑے ہوئے ایک طویل عرصہ بیت گیا ہے، مگر اگر بغور سنجیدگی سے دیکھا جائے تو ان سالوں کے دوران قوم اس عظیم راہنما کو آج تک اپنے دلوں سے فراموش نہیں کر سکی، ذوالفقار علی بھٹو شہید کو “جمہوریت کے دشمنوں” نے 4 اپریل 1979 کو تختہ دار پر لٹکا دیا، بھٹو شہید عالمی لیڈروں میں سے ایک تھے، 1965 کی پاکستان بھارت جنگ کے بعد جس طرح مایوس قوم کو زندگی کا ایک نیا حوصلہ، ولولہ اور پختہ عزم دیا، وہ پاکستان کی تاریخ میں سنہری حروف میں لکھا جائے گا، بھٹو شہید نے “جمہوریت” کا جو پودا لگایا اس کی “آبیاری” اپنے خون سے کی، بھٹو شہید دراصل سیک شخصیت کا نام نہی تھا، بلکہ ایک نظریہ، فلسفہ اور تحریک کا نام تھا، جمہوریت کا پودا لگانے والے کو دنگ دلی اور بے رحمی کے ساتھ 1979 میں تختہ دار پر لٹکا دیا گیا، جس کے بعد بےنظیر بھٹو نے انتہائی جرات مندی اور بہادری کے ساتھ اس جمہوریت کے پودے کی آبیاری کی خندہ پیشانی کے ساتھ ذمہ داری کو اپنے نازک کندھوں پر رکھا، مگر 27 دسمبر 2007 کو وہ لیاقت باغ کے ایک سیاسی جلسہ کے دوران ایک سازش اور دہشت گردی کی نظر ہو گئی ،

دسمبر 1971 کو یحئ خان نے ملکی حالات سدھارنے کی آخری کوشش کے طور پر جب پاک بھارت کی جنگ جاری تھی، ایک نئے سیاسی ڈھانچے کا اعلان کر کے نور الامین کو پاکستان کا نیا وزیراعظم اور ذوالفقار علی بھٹو کو نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ بنا دیا، تاہم فورا” ہی سقوط ڈھاکہ کا سانحہ پیش آ گیا، جس کے بعد صدر یحی خان نے نور الامین کو عہدے سے سبکدوش کر کے اور اپنی سبکدوشی کا بھی اعلان کر دیا، اور حکومت کے تمام اور مکمل اختیارات ذوالفقار بھٹو شہید کو سونپ دیے، بھٹو ان دنوں اقوام متحدہ میں تھے، اس اعلان کے بعد انہوں نے 20 دسمبر 1971 کو وطن واپس آ کر ملک کی صدارت کی بھاگ دوڑ سنبھالی، انہیں ملک کا پہلا اور واحد سول مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بھی مقرر کیا گیا،

ذوالفقار علی بھٹو شہید نے صدارت سنبھالنے کے بعد اپنی پہلی نشری تقریر میں قوم کے ساتھ یہ وعدہ ملک جلد از جلد جمہوریت کی بحال کرنے کے لئے کوشش کی جائے گئی، اور عوام کا سیک نیا آئین جمہوری تقاضوں کے مطابق تیار کر کے دیا جائے گا، اور پھر باقاعدہ طور پر اصلاحات کا سلسلہ شروع ہو گیا، اور 6 مارچ 1972 کو ایک سہ جماعتی معاہدہ کیا، جس میں پیپلز پارٹی کے علاوہ نیشنل عوامی پارٹی اور جمیعت علمائے اسلامی شریک تھیں، معاہدے کی روح سے درج ذیل امور طے پائے، عبوری دستور کے لئے قومی اجلاس طلب کا جائے گا، اور قومی اسمبلی کے اجلاس میں حکومت پر مکمل اعتماد کیا جائے گا، اور مارشل لاء 14 اگست 1972 تک جاری رہے گا، 1972 کو بھٹو حکومت نے معاہدہ کے تحت ایک عبوری حکومت آئین کے نفاذ تک جاری رہی، اور نیا آئین پاکستان کا سیک ایسا تاریخی آئین تھا کہ جیسے واضح اکثریت نے منظور کیا تھا،

ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے دور میں ملک کی ترقی کے لئے متعدد اصلاحات کیں، ان کے دور میں ملک کی زرعی پیداوار میں 10 سے 12 فیصد تک اضافہ ہوا، برآمدات کے ذخائر بڑھ گئے اور فی کس سالانہ آمدنی بھی بڑھ گئی، 31 بنیادی صنعتوں تجارتی بینکوں اور بیمہ کمپنیوں کو قومی تحویل میں لے لیا گیا، 31 دسمبر 1973 کو ملک کی پہلی اسٹیل مل کا افتتاح کیا گیا، 23 اگست کو مزدوروں کے لئے سہولتوں کا اعلان کیا گیا، اور نئی تعلیمی اصلاحات نافذ کر فی گئیں، 21 مارچ 1973 کو پاکستان کی سمندری حدود میں پچاس نائیکل میل کا اضافہ کیا گیا، جس سے ماہی گیری کی صنعت کو فروغ حاصل ہوا،

بھٹو شہید کی طویل جمہوری جدوجہد کے بعد ملک کو “جمہوریت” نصیب ہوئی، کیونکہ پاکستان معرض وجود میں آنے کے بعد بار بار “فوجی ڈکٹیٹروں” کی ہوس اقتدار کا نشانہ بنتا رہا، اگر زرا غور کیا جائے تو پاکستان معرض وجود میں آنے کے بعد آدھا حصہ فوجی آمروں کی ہی زد میں رہا، فوجی جرنیل اپنے ہی ملک کو اور عوام کو فتح کر کے اپنے سینے پر فتح کے تمغے سجاتے رہے، یہ سلسلہ 1958 سے شروع ہوا تھا، اور جس کا اختتام 2008 کو ہوا،

ذوالفقار بھٹو شہید نہ صرف اپنے ملک بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی مقبول لیڈر اور شہرت رکھتے تھے، ان کی قائدانہ صلاحیت، مدبرانہ سوچ، سیاسی بصیرت، معاملہ فہمی، اور تدبر و ذہانت کے مشرق و مغرب کے دیگر ممالک بھی قائل تھے، بھٹو شہید ملکی بقاء اور استحکام جمہوریت کے پیامبر تھے، بھٹو کو کھونے کے بعد پاکستانی عوام کے پاس کچھ بھی تو نہیں بچا، بھٹو انتہائی انقلابی نہیں تھے، مگر انقلابی ضرور تھے،

4 اپریل 1979 کی وہ بھیانک رات جس نے اس ملک کی تاریخ بدل دی، زرا اس رات کو یاد کیجئے، جب بھٹو کو ایک غلط بیان پر دستخط کر کے اپنی زندگی بچا سکتے تھے، مگر اپنے اصول اور ملک کے بہترین مستقبل کی خاطر اپنی زندگی کو جمہوریت اور عوام کی خاطر کم قیمت سمجھا، یاد رکھئے کہ “آدرش” ہمیشہ فرد کی زندگی سے زیادہ قیمتی ہوتا ہے، کیونکہ یہی وہ اصول تھا، جس کی حفاظت کی خاطر بھٹو نے اپنی جان کی بھی پرواہ نہ کی، اور اپنی جان تک اس ملک اور عوام کی خاطر قربان کر دی، بھٹو جمہوریت کے عظیم علمبردار تھے، جنہوں نے وطن عزیز کی خاطر اور جمہوریت کی حقیقی بحالی کے قیام کی خاطر اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا تھا، بھٹو غریب عوام کے لئے امید کی آخری کرن اور روشنی تھے،

بھٹو کی زندگی کا یہ ہی بنیادی مشن تھا کہ جمہوریت کی بحالی کے بعد ایسا معاشرہ قائم کیا جائے جو استحصال سے مکمل پاک ہو، مواقع سے ہمکنار ہو اور ہر فرد اس کی استعداد اور صلاحیت کے مطابق ایسے حقوق فراہم کئے جائیں جو اجتماعی اور انفرادی طور پر جدید دور میں ایک ایسے قومی تشخص سے ہمکنار کرے جو دنیا کی دوسری اقوام کے لئے “سامان پیروی” فراہم کر سکے،

ذوالفقار علی بھٹو کی زندگی کے ادھورے مشن کو آج مکمل کرنے کی پھر سے اشد ضرورت ہے،

آج بھی دل ہے، بے قرار، آج بھی چشم اشکبار
آج بھی روح سوگوار ، تیرے لئے یہ جاں نثار

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں