رت بدل رہی ہے
باد بہاری
دبے پاوں چل رہی ہے
باغوں میں
پھولوں میں
نرم خوابناک گوشوں میں
خوشبو کے بگولوں میں
رات کی رانی
موتیا کلی
گلاب کی ہنسی
گو تیری بات چل رہی ہے
حویلی کی لال ممٹی
جس پر
شاید
کچھ فاختائیں
دھونی رما ئے
اپنے خوشنما
سروں کو
پروں میں چھپائے
کوئی جاپ جپ رہی ہیں
اس گلی میں
جہاں لاشوں
اور دلہنوں کی
سیجیں سجانے کو
گل گرائے جاتے ہیں
تھکے ہوئے قدموں سے
چمپا کی خالی بوری
لے کے چلتی بڑھیا
کیوں سسک رہی!
رت بدل رہی ہے
سر شام بجھ گئی تھی
چولہے کی لو اس گھر سے
دھواں چھٹا تو دیکھا
لیمپ کی لجلجی سی پیلی
گھبرائی روشنی میں
وہ کھڑی ہے
سرخ پتھریلی
گلی میں
پیپل کی جڑ کے پیچھے
اک نبض چل رہی ہے
رت بدل رہی ہے۔
226