personality an introduction 150

ایک شخصیت ایک تعارف

خصوصی انٹرویو/
اعجاز احمد طاہر اعوان

کراچی کے مصروف ترین علاقہ “رنچھور لائین” کے فٹ پاتھ پر پر قائم “اخبار فروش اسٹال” چلانے والی باہمت، بہادر اور عظیم جذبہ سے سرشار محترمہ۔جمیلہ خاتون سے آج آپکی “PNP” نیوز چینل کے حوالے سے ایک یادگار ملاقات کرواتے ہیں،

محترمہ جمیلہ خاتون ایک طویل عرصہ سے شہر قائد میں زندگی کی تلخیوں سے مردانہ وار جذبے اور حوصلے کی عظیم شخصیت اور خواتین کے کئے “رول ماڈل” کا بھی درجہ رکھتی ہیں، جو صبح سویرے اٹھ کر اخبارات کے سپلائی ڈپو سے روزانہ کے اخبارات کر سائیکل پر لے کر آتی ہیں، اور پھر روزانہ کہ بنیاد پر پھر تمام اخبارات اور جرائد کو “بک اسٹال” پر رکھنے کے بعد گھر گھر جا کر اخبارات بھی تقسیم کرتی ہیں، اس کے علاوہ اپنے خاوند کے انتقال کے بعد تنہا اور باہمت جذبے سے موٹر سائیکل کے لئے آئل بھی خود ہی چینج کرتی ہیں، میرے خاوند کے انتقال کے بعد اللہ نے میرے اندر ہمت اور محنت کے جذبے کا اجاگر کیا، اگر انسان کے اندر بلند حوصلے، کچھ کر گزرنے اور مسلسل محنت و کاوش کا جذبہ سجاگر ہو جائے تو ہر مشکل وقت آسان اور سہل ہو جاتا ہے،

محترمہ جمیلہ خاتون شہر قائد کراچی کی نہ صرف باہمت اور عظیم جذبے سے سرشار ہیں بلکہ جذبہ انسانیت سے بھی سرشار ہیں، جس نے ہر مشکل کا مقابلہ خندہ پیشانی اور ہر قدم پر ثابت قدم بھی رہیں، اور اب تک قائم ہیں، اخبارات کی تقسیم اور اخبار فروش اسٹال کو چلانے کے ساتھ ساتھ اپنے ہاتھ سے آئیںل کی تبدیلی کے امور اور نٹ بلٹ بھی بڑی مہارت کے ساتھ کھونے کے ہنر سے واقف ہیں، موٹر سائیکل کے فنی امور پر مکمل دسترس بھی رکھنے میں منفرد مقام رکھتی ہیں،

اس وقت کراچی جو تین کروڑ کی زائد آبادی والا شہر ہے جمیلہ خاتون واحد باہمت “خاتون اول” کا مقام رکھتی ہیں، اب تک کراچی سے شائع ہونے والے لاتعداد اخبارات اور جرائد میں انکی زندگی کے بارے انٹرویو شائع ہو چکے ہیں، جمیلہ خاتون نے اپنی زندگی کی تلخیوں کا خندہ پیشانی اور مردانہ وار مقابلہ کیا ہے اور ہنوز کر بھی رہی ہیں، ان کے اس عظیم جذبے کو خراج تحسین پیش کیا جاتا ہے،

جمیلہ خاتون نے اپنی زندگی کے “اوراق پلٹتے” ہوئے زندگی کی تلخیوں کے بارے کہا کہ میں نے ایک متوسط خاندان میں اپنی آنکھ کھولی، میرا تعلق “میمن برادری” سے ہے، ہم 2 بہنیں اور درجہ بنفی کے لحاظ سے میں سب سے بڑی ہوں، گھر کے مالی حالات تنگی کے باعث ایک بہن بیمار ہوئی تو مالی حالات اور پیسوں کی کمی کے باعث اس کا علاج معالجہ نہ کروا سکے اور وہ اپنی بیماری کا مقابلہ کرتے کرتے وہ ہمیں چھوڑ کر چلی گئی، والد گرامی سائیکل رکشہ کرائے پر چلاتے تھے، یہ اس وقت اور اس دور کی بات ہے جب سائیکل رکشہ کرائے پر دستیاب ہوتا تھا، میرے والد کی یہ خواہش تھی کہ میں اعلی تعلیم حاصل کر کے اپنے گھریلو حالات کو بہتر کر لوں، مگر غربت اور اسکول کے اخراجات پورے نہ ہونے کے باعث ایسا ممکن نہ ہو سکا،اور پڑھنے کا خواب ادھورا ہی رہ گیا، جو صرف میری سوچ تک ہی محدود ہو کر تہ گیا،

جمیلہ خاتون کی دکھ بھری داستان کا سلسلہ یہاں ختم نہ ہوا وہ ابھی 9 سال کی ہی تھی کہ والد گرامی کی آنکھیں ہمیشہ کے لئے بند ہو گئیں، اور وہ ہمیں روتا سسکتا ہوا چھوڑ گئے، اور ان کی وفات کے تقریبا” 6 سال بعد میری والدہ پیاری بھی اس دنیا سے منہ موڑ کر اور ہیں مذید مصیبتوں کے لئے تنہا چھوڑ گئیں، یتیم کی حالت میں کوئی سر پر ہاتھ رکھنے والا نہیں تھا، زندگی کے 26 سال گزرے تو ایک “رنڈوے” کا رشتہ آ گیا، اس کی بیوی کے انتقال کو چند ماہ ہی گزرے تھے، اس کا بھی ایک
“لے پالک” بچہ تھا، جس کا نام محمد شاہد تھا، اس “رنڈوے” کا کہنا تھا کہ مجھے کچھ نہیں چاہئے تن کے کپڑوں کے ساتھ ہی رخصتی کر دیں، اور میری شادی ابراہیم “تیل والے” 1988 میں ہو گئی، لیکن میرا نصیب اچھا نہیں تھا، شادی کے چند ماہ بعد ہی یہ انکشاف ہوا کہ میرے شوہر کو موذی مرض “کینسر” ہے، اس کا بہت علاج معالجہ کروایا اور ہماری میمن برادی نے بھی مالی تعاون کیا مگر کون کب تک کسی کی مدد کرتا ہے، اور میرا شوہر بھی 1992 میں میری گود میں بیٹے کو ڈال کر چلا گیا، شوہر نے اپنی سالی سے اس بچے کو اس کئے لیا تھا کہ کوئی تو میری قبر پر فاتحہ خوانی پڑھنے والا ہو،

جمیلہ خاتون جوں جوں اپنی زندگی کے اوراق کو پلٹ رہی تھی اس کے چہرے سے افسردگی کے تاثرات اور تکلیف کے احساسات کو بآسانی پڑھا جا سکتا تھا، اس کے باوجود جمیلہ خاتون نے اپنی دکھ بھری داستان کے سلسلہ کو تسلسل کے ساتھ جاری رکھا، جب میرے شوہر شدید بیمار ہو گئے تو موٹر سائیکل کا کام اور آئیل چینج کرنے والے لڑکوں نے دوران کام بہت تنگ کیا، جب شام میں ان سے سارے دن کے کام کا حساب مانگتی تو کہہ دیتے کہ آج تو کام ہی نہیں آیا، بد دیانتی ان کے اندر کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی، شوہر کے انتقال کے بعد دو تین روز تک سوگ میں بیٹھی رہی، شوہر کو ہم دے جدا ہوئے تیسرا ہی دن تھا کہ میرا بیٹا شاہد روتا ہوا میرے پاس آیا، کہ ممی صبح سے بھوکا ہوں، “ٹھیے” والے مجھے پیسے نہیں دے ریے، کل سے یہاں پر نہی آنا، شوہر کے انتقال کے بعد سینکڑوں عشق کے مارے میرے اردگرد گھومنے لگے، مگر جب میں نے انہیں ،”گھاس” نہ ڈالی تو ایک ایک کر کے میرے راستہ سے ہٹتے گئے،

جمیلہ خاتون نے کہا کہ انجمن اخبار فروش یونین کے اندر بھی گندی سیاست کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے، انجمن کے باوجود اخبار فروشوں کے مسائل جوں کے توں ہی ہیں، اس وقت پورے کراچی کے اندر مختلف علاقوں میں 27 کے لگ بھگ ڈپو قائم ہیں، اور صبح سویرے ڈپو سے اخبارات کے بنڈل اٹھا کر لاتی ہوں، جب سے الیکٹرانک میڈیا کا دور آیا ہے، اخبارات کا کاروبار “ٹھپ” ہو کر رہ گیا ہے، اب زندگی اسقدر مصروف ہو گئی ہے کہ کسی کے پاس اخبار کے پڑھنے کا وقت ہی نہیں ہے، ہر شخص زندگی کی بھاگ دوڑ میں لگا ہوا ہے، اب تک کرائے کے ہی مکان میں رہتی ہوں، اس وقت صرف 50 کے قریب ہی اخبارات فروخت ہوتے ہیں،

زندگی کی مشکلات اور مصائب کے باوجود بھی جمیلہ خاتون کے حوصلے بلند ہیں اور ہر پریشانی کا مقابلہ پوری خندہ پیشانی کے ساتھ نبھا رہی ہے، عورت ہمارے معاشرہ کی پختہ عزائم کے ساتھ مضبوط چٹان کی مانند ہے، اور اب تک پوری ہمت کے ساتھ زندگی کی دوڑ کی طرف رواں دواں ہوں

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں