اور ہم بھول جاتے ہیں۔ اپنی ذات کو، اس مٹی کے پتلے کو۔ کتنا سجاتے ہیں اپنے گھروں کو، اینٹوں سے لے کر فرنیچر، پردے، پھول پودے، سینٹری، دیواروں کے رنگ غرض ہر چیز کا تناسب برقرار رکھتے ہیں۔
اپنے وجود کو کتنا پالتے ہیں!!! خوراک، صابن، مختلف طریقے جسم و جاں کو راحت پہنچانے کے۔ اور اس سب میں کئی دل اور جانیں روند ڈالتے ہیں۔ کس لئے؟ وہ گھر جو میرا نہیں، ایک زندگی لگائی، 50، 60 کی عمر میں بنایا، اور کفن اوڑھ کر تھک ہار کر قبر میں جا سوئے۔ وہ بدنصیب وجود جس کو اتنا سنوارا، وہ گل سڑ گیا، کیڑے کھا گئے۔ وہ زبان جو کسی کو بولنے نہیں دیتی تھی۔ کٹ کر حلق میں جا گری اور کیڑوں کی خوراک بنی۔ تو کیا ہی اچھا ہو کہ ہم ایسی باتوں کو ذہن میں رکھ کر زندگی کا نصاب منتخب کریں۔” وعد اللہ حق” پر یقین کامل رکھیں۔ اللہ کے دئیے کو اوروں میں بانٹ کر کھائیں۔ جو کھا لیا، پہن لیا، استعمال کر لیا وہ سب ہمارا ۔ جو دے دیا، بانٹ لیا وہ سرمایہ کاری ٹھہری اخروی زندگی کی۔ اس گھر کی، جہاں کے حقوق ملکیت ہمیشگی لیے ہوئے ہوں گے۔ یہ باتیں سب سے پہلے میری ذاتی یاد دہانی کے لیے رقم ہیں بعد ازاں میرے بہن بھائیوں کے لیے۔
طالب دعا
نمیرہ محسن
مارچ 2023
257