تحریر سید فیاض حسین گیلانی
شہکار عزم حقیقی امجد صدیقی ؛ یہ شدید گرمیوں کے جمعہ کا ایک دن تھا جب مجھے اس دعوت پر جانے کا موقع ملا جو معروف موٹیویشنل سپیکر اور ٹی اینکر محترم تصدیق گیلانی کی طرف سے تھا۔ سعودیہ کے دارلحکومت ریاض میں بہت کڑاکے کی گرمی تھی اور میں مطلوبہ ہال میں قریب دو منٹ قبل مطلب تقریب کے وقت سے داخل ہوا۔ اور یہ دیکھا کہ ہمارے تمام پاکستانی بھائی حسب معمول موجود ہی نہیں یعنی پاکستان سے باہر بھی ہمارا عمومی مذاج ایسا ہی ہے۔لیکن ہال میں بہرحال ایک شخصیت ایسی تھی جو ویل چئیر پر تھی یعنی جسمانی طور پر معذور۔ خیر میں نے ان سے رسمی سلام دعا کیا اور ذیادہ بات نہ کی۔ ویسے بھی میں اس طرح کے معذور لوگوں سے کوشش کرتا ہوں کہ ان کی ذات پر بات نہ کروں۔ یہ اخلاقی طور پر مناسب نہیں لگتا کیونکہ تجربہ کی بات ہےکہ اس طرح کی گفتگو ان کو احساس کمتری کا شکارکر دیتی ہے یا دوسرے لفظوں میں آپ ان کے درد میں اضافہ کرتے۔ بہرحال پروگرام شروع ہوا اور تصدق گیلانی صاحب نے ایک لیکچردیا کہ انسان کو ہمت نہیں چھوڑنی چاہئے۔ اور اس لیکچر میں تصدق گیلانی صاحب نے چند اشخاص کی مثالیں دی کہ جہنوں نے ہمت و حوصلہ کو نہیں چھوڑا اور بار بار کی کوشش کے بعد وہ کامیاب ترین لوگ بنے۔ لیکچرکے بعد انہیں شخصیت نے لائیٹ موڈ میں کہا گیلانی صاحب اپنی کہانی بھی یہی ہے۔ اسی دوران میں جماعت اسلامی سعودیہ کے راہنما محترم حافظ عبدالوحید صاحب سے ملا۔ حافظ صاحب اور میرے سیاسی ‛ سماجی و مذہبی افکار میں ذمین آسمان کا فرق ہے لیکن اس کے باجود ہمارے ذاتی تعلقات بہت اچھے ہیں۔میں نے حافظ صاحب کو بتایا کہ میں بہت جلد آ گیا تھا اورہال میں بس یہ ایک بیچارہ معذور شخص تھا تو حافظ صاحب نے بتایا یہ جس کو تم بیچارہ کہہ رہے ہو یہ ایک بہت کامیاب بزنس مین ہے اور معذوری کے باجود اپنی محنت و حوصلہ سے کامیاب ہوا۔مجھے سن کر حیرت ہوئی اور کچھ مذید معلومات ملی ۔ اور میں اس حد تک متاثر ہوا کہ چند دن بعد میں نے امجد صدیقی کو خود فون کر کے ان کے گھرگیا اور جب میں ان کے گھر پہنچا تو دیکھا کہ چند اور مہمان بھی تھے اور صدیقی صاحب خود ان واسطے مرغی پکا رہے تھے ویل چئیر پر۔ بہرحال میں نے پھر بھی صدیقی صاحب کے ماضی کو نہ کریدا۔ اور بس رسمی باتیں کی اور ان کی ہمت کو خراج تحسین پیش کیا۔ اسکے بعدچند مذید تقریبات میں صدیقی صاحب سے ملاقاتیں ہوئی جو رسمی سلام دعا اور حال چال پوچھنے تک محدود رہی۔ اسکے بعد میں نے ریاض چھوڑ دیا اور دنیا کی مصروفیات میں ہم سب گم ہوگئے۔ ایک عرصہ کے بعد مجھے کسی دوست نے ایک کتاب کا حوالہ دیا کہ جس کا نام ‛‛ درد کا سفر ‛‛ تھا۔ میرا دوست اس کتاب سے بہت متاثر تھا اور بار بار تعریف کر رہا تھا۔ میں سمجھا یہ کتاب کسی رومانی ناول پر مبنی ہوگی اور کوئی معروف منصف ہوگا۔ سو میں نے دوست سے سوال کیا تو اس نے بتایا کہ یہ ایک آپ بیتی ہےاور منصف کا نام ہے امجد صدیقی۔ میں نے پھر بھی توجہ نہ دی مگر اگلے دن اتفاقاً مجھے اس کتاب کا ٹائیٹل نظر آیا مصنف امجد صدیقی بمع تصویر۔ فوراً میرے دماغ میں ریاض کے اس گرم دن کی تصویر ابھری۔ او تو یہ وہی صدیقی صاحب ہیں۔ میں نے گھنٹوں میں صدیقی صاحب کا نمبر تلاش کیا اور ان سے پہلی بار بطور صحافی یا کالم نگار رابطہ کیا۔ اب جب مجھے صدیقی صاحب بارے معلومات ملی تو حیرت ذدہ رہ گیا کہ کیسے کیسے نایاب ہیرے ہیں اس دنیا میں۔ قارئین ذراء آپ بھی پڑھیں عزم حوصلہ محنت اور صبر استقلال کےاس شہکار بارے۔درد کے اس سفر کی ابتداء موضع پھلوراں ضلع سرگودہا سے ہوئی جہاں غلام رسول نامی ایک غیر معروف صحافی اور کپڑے کے معمولی تاجر کے گھر ایک چاند نے آنکھ کھولی اور اسکا نام امجد پرویز صدیقی رکھا گیا۔امجد چھ بہن بھائیوں میں چھوتھے نمبر پر تھا۔ حاجی غلام رسول صاحب نے غربت کے باجود بچوں کو تعلیم دلوائی۔ امجد بی کام تک ہی پڑھا کہ والد صاحب کے ہاتھ بٹانے ستر کی دہائی کے آخر میں سعودیہ ایک بنک میں ملازم ہو کر آ گیا۔ یہاں امجد نے اپنی محنت و دیانت سے بہت جلد مقام بنا لیا۔ بنک کا تمام عملہ اس کی بے پناہ عزت کرتا تھا۔ التہ کے بنک کی جانب سے اسکو بہترین کارکن کا ایوارڈ ملا۔ مگر پھر ایک دن ایک چوٹ نےجو پیدل چلتے امجد صدیقی کو ایک گاڑی کی ٹکر نے دی سے درد کے سفر کا آغاز ہوا۔ اس سے ان کی ٹانگیں ٹوٹ گئی اور پھر ایک ٹانگ تقریبا غیر فعال ہوگئی مگر اس تکلیف کو امجد صدیقی نے خود پر حاوی نہ کیا اور کام جاری رکھالیکن تقدیر کو ابھی ایک اور امتحان لینا تھا اور محض کچھ عرصہ بعد جب امجد صدیقی مدینہ گئے روضہ رسول ص پر حاضری واسطے تو ان کی کار کا ایک بہت شدید ایکسیڈنٹ ہوگیا جس نے صدیقی صاحب کو ہوش سے بیگانہ کر دیا۔ ہفتوں ہسپتال کے بستر درجنوں دواؤں کے بعد جب صدیقی صاحب ذہنی طور پر بحال ہوئے تو معلوم ہوا کہ ان کے جسم کا نچلا حصہ تقریبا غیر موثر ہو چکا۔ نوکری ختم ہوگئی۔ ان حالات میں کوئی عام آدمی ہوتا تو وہ حوصلہ چھوڑ دیتا اور ساری ذندگی بستر پر معذور بن کر معاشرتی بے حسی کا شکار ہو جاتا اور پھر ایک دن احساس کمتری نفسیاتی دباؤ اور جذباتی بے چینی میں مر جاتا لیکن اس عزم و حوصلے صبر و برداشت کے پہاڑ نے حالات سے بغیر ہتھیار بغیر مدد کے اعلان جنگ کر دیا شکست ماننے سے انکار کر دیا اور لنگوٹ کس کر میدان میں آگیا۔ ایک طرف سگنین حالات کا تشدد دوسری طرف معاشرے کی بے حسی تیسری طرف جسمانی کمذوری چھوتھی طرف مالی بدحالی کے مقابل امجد صدیقی ایک معذور لاچار بے بس تن تنہا میدان مقابلے واسطے کھڑا ہوگیا۔ انہوں نے شروع میں تولیئے کا کاروبار شروع کیا۔ یہ عجیب کاروبار تھا کہ جس کا مالک مینیجر کلرک مذدور اور سیلزمین خود ایک جسمانی طور پر معذور شخص تھا۔ امجد صدیقی کی طاقت یا رب کریم سے دعا تھی یا پھر اسکا حوصلہ محنت اور ہمت تھی۔ وہ خود ویل چیئر پر ریاض کے بازاروں مارکیٹوں گلی گلی محلہ محلہ جاتا اور تولئے کا لین دین کرتا۔ اور پھر خود ہی رات واپس آتا اور اپنے واسطے خود ہی کھانا بناتا واش روم کے معملات خود ہی نپٹاتا اور اگلے دن پھر جدو جہد واسطے نکل پڑھتا اس دوران اسکو بے شمار مسائل کا سامنا کرنا پڑھا۔جسمانی معذوری تو تھی ایک مسلہ لیکن اس وجہ سے بطور سیلز مین جو ان کو معاشرتی مسائل تھے وہ ذیادہ ناقابل برداشت تھے۔ معاشرے اور لوگوں کی بے حسی طنز جملے بازی امجد صدیقی کو روزانہ جذباتی اور نفسیاتی گھاؤ لگاتی لیکن یہ عزم کا پہاڑ روزانہ ان تکالیف کو شکست دیتا اور پھر دھیرے دھیرے وہ مغلوب سے غالب ہوتا گیا اور ایک دن وہ ریاض کا کامیاب بزنس مین بن گیا۔ اب اس کا کاروبار نہانے اور منہ صاف کرنے والے تولئے سے بہت آگے بڑھ گیا۔ وہ پاکستانی چاول کا بڑا ایکسپورٹر بن گیا۔ اور اسکا کاروبار نہ صرف اشیاء میں بڑھتا گیا بلکہ پہلے ریاض سے نکل کر سعودیہ کے دوسرے شہروں تک اور پھر سعودیہ سے نکل کر دوسرے ممالک تک وسیع ہوتا گیا۔اب کاروبار کے ساتھ ساتھ امجد صدیقی سماجی و ثقافتی سرگرمیوں میں بھی مصروف ہوتے گئے۔ ڈس ایبلزسے وابسطہ کئی کھیلوں میں حصہ لیا اور اکثر میں فتح یاب ہوئے۔اب معاشرے اور دنیا نے بھی صدیقی صاحب کی صلاحیتوں کا اعتراف کرنا شروع کر دیا۔ انہوں نے دنیا کےباون ممالک کا سفر کیا وئیل چئیر پر۔ اب دنیا کے اکثر ممالک نے ان کو باعزت پروٹوکول دینا شروع کردیا۔ دنیا کے بہت سے ممالک اور تنظیموں نے امجد صدیقی کو حوصلہ افزائی کے بیشمار ایوارڈ دئے جس میں ریاست آئے متحدہ امریکہ کی جانب سے ون فراہم ملین کہ جس کا سادہ اردو ترجمعہ بنتا ہے لاکھوں میں ایک بھی شامل ہے۔ پھر امجد صدیقی کو بطور اخلاقی طاقت کا شاہکار بھی دنیا نے دیکھا کہ کامیاب بزنس مین اور دنیا میں خود کو منوانے کے بعد صدیقی صاحب نے معاشرے سے انتقام نہیں لیا۔ اپنے اندر غرور اور کامیابی کا نشہ حاوی نہ ہونے دیا بلکہ اس نے اپنے عظیم حوصلے سے بڑھ کر دل کے دروازے لامحدود وسیع کر دئے۔ اور خدمت انسائیت واسطے کام شروع کردیا اور اس میں ان کا بنیادی کام جسمانی طور پر معذور اشخاص واسطے تھا۔ انہوں نے درجنوں کے حساب سے معذور اشخاص کو حوصلہ دیا ہمت دلائی حوصلہ افزائی کی اور ہر طرح سے مالی ہو یا اخلاقی کاروباری ہو یا جذباتی مدد کی اور ان کو معاشرے پر بوجھ کے بجائے معاشرے کا ایک باوقار شہری بننے میں مدد کی۔ مجھے صدیقی صاحب کی کتاب جو کہ واقعی درد کا سفر تھی سے چند اقتباس پڑھنے کا موقع ملا۔ ویسے تو شاید ساری کتاب ہی جذباتیت سے لبریز ہے لیکن ایک واقعہ پڑھ کر لوگوں کے روگھٹے کھڑے ہو جاتے ہیں کہ کس طرح ایک رات صدیقی صاحب گھر کے باہر ایک فٹوں کے حساب گہرے کھڈے میں گر گئے۔ جہاں کوئی مدد واسطے نہ تھا۔ اور صدیقی صاحب نے بجائے چیخوں پکار کرنے یا دن کی روشنی تک اس اندھیرے گھڑے میں انتظار کرنے کے خود ہی ہمت کو یکجا کیا اور خود ہی بغیر کسی دنیاوی مدد کے محض خدا کے کرم سے خود ہی باہر نکل آئے۔ یہ واقعہ عام لوگوں واسطے شاید ایک معجزہ سے کم نہ ہو۔ اور اس طرح کے بیشمار واقعات اس میں درج ہیں۔ المختصر مجھے امجد صدیقی کی کہانی جان کر بہت ذیادہ خوشی اور فخر محسوس ہوا۔ کیونکہ امجد صدیقی ایک میرا مسلمان اور پاکستانی بھائی ہے۔ اب ہماری حکومتوں کا یہ فرض ہے کہ وہ امجد صدیقی جیسے لوگ کہ جو عزم ہمت کے شہکار ہیں انکو کو نیشنل اور حکومتی میڈیا پر دعوت دے تاکہ ان کو سن کر ہمارے نوجوان اورمعذور اشخاص کا حوصلہ بلند ہو۔ خاص کر ہم ان نوجوانوں کہ جو مواقع کا رونا روتے ہیں کو یہ ضرور التماس کریں گے کہ وہ امجد صدیقی جیسے لوگوں کو بطور مثال بنا کر عملی ذندگی کی جدو جہد کریں۔ امجد صدیقی بارے شاید ایسے درجنوں کالم لکھے جا سکتے ہیں کیونکہ ان کی شخصیت اور جدوجہد بہت نایاب ہےمگرمجبوری کے تحت اس کو مختصر تحریر تک ہی محدود رکھاجا سکتا ہے۔ fayazsyed111@gmail.com
339