“ڈپریشن” خود کشیاں کرنے والوں میں تیزی کے ساتھ اضافہ،،،؟
کالم نویس/اعجاز احمد طاہر اعوان
“ماہر نفسیات” کا کہنا ہے کہ
“خود کشیاں ” کرنے والوں کی شرح میں تیزی کے ساتھ اضافہ نے کئی سوالات کو اجاگر کر دیا ہے، جن میں سرفہرست ملک کے اندر بڑھتی ہوئی منہگائی، بے روزگار نوجوان، احساس محرومی، عدم حقوق کی فراہمی، نا انصافی، دولت کی تقسیم میں ناانصافی، کی بنیادی وجوہات شامل ہیں، “عالمی ادارہ صحت” کی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں
“خود کشیاں” کرنے والوں کے اندر بڑی تیزی کے ساتھ اضافہ ہوتا جا ریا ہے، اور ہر سال تقریبا” 10 لاکھ سے زائد افراد افراد “خود کشی” کے مرتکب ہوتے ہیں،اور اس کا گراف ہر آنے والے دن کے ساتھ بڑھتا ہی جا رہا ہے، اس کے بڑھتے ہوئے رجحان کو روکنے کے لئے کوئی ملک سنجیدہ نظر آتا ہی نہی، اگر “خود کشی” کرنے والوں کے اس اقدام کو سنجیدہ نہ لیا گیا تو اس بات کا شدید خطرہ لاحق ہے کہ اس کی شرح موجودہ اعداد و شمار سے دوگنا ہو جائے گئی، اس وقت دنیا بھر میں “خود کشیاں” کرنے والوں کی عمروں کا تعین کرنا انتہائی مشکل ہے، ماضی کے اوراق کو اگر پلٹ کر دیکھا جائے تو ایک دور ایسا بھی کہ “خود کشی” کرنے والے عمر رسیدہ ہی ہوا کرتے تھے، مگر اب صورتحال اس کے بالکل برعکس ہے، اب خود کشی کے مرتکب افراد کی عمروں کے درمیان کوئی امتیاز اور فرق کہیں نظر نہی آتا، اب ملک کے اندر نوجوان خود کشیاں با کثرت کر رہے ہیں، اس وقت دنیا بھر میں “خود کشی” کرنے والوں کی تعداد ایک تھائی کے لگ بھگ ہو چکی ہے،
“ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن” کے مطابق اس بات کا بھی انکشاف ہوا ہے کہ گزشتہ 45 سالوں کے دوران دنیا بھر میں “خود کشی” کا ارتکاب کرنے والوں میں 60% تک اضافہ ہو چکا ہے، اس وقت ایک محتاط اندازے کے مطابق دنیا بھر میں ہر ایک لاخھ افراد میں سے 16 افراد “خود کشئ” کرنے پر اپنے آپکو ذہنی طور پر تیار کرتے ہیں، اور ہر 40 سیکنڈ کے اندر کوئی نہ کوئی “خود کشی” کرنے کی تیاری کر رہا ہوتا ہے،
آج کے جدید دور اور مسائل کی دلدل کا شکار افراد مختلف مسائل سے دوچار ہی اور تیزی کے ساتھ ہو رہے ہیں ، جس کی بنیادی وجہ یہ بھی سامنے آ رہی ہے کہ پڑھے لکھے اور تعلیم یافتہ افراد تیزی کے ساتھ “ڈپریشن” DEPRECATION کا شکار ہو رہے ہیں، ماہرین نفسیات کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر کوئی شخص پندرہ روز تک مسلسل “ڈپریشن” کا شکار رہے گا تو وہ بہت جلد ذہنی طور پر “خود کشی” کرنے پر تیار ہو جائے گا،اس لئے اس حالت کے مرتکب افراد کو کبھی تنہا اور اکیلے نہ چھوڑا جائے، اور ان کو کسی نہ کسی طرح مصروف رکھا جائے اور خاندان کے افراد اسے یہ “احساس” دلاتے رہیں کہ وہ مسائل اور پریشانی کی جنگ اور ماحول میں ہرگز تنہا نہی ہے، پورا خاندان اس کے ساتھ ہے،
“خود کشی” کرنے والے اکثر دو طریقوں کا ہی استعمال کرتے ہیں، کوئی زہریلا مادہ کھانے سے، تا پھر گلے میں پھندا ڈال کر اور ایک اور طریقہ اپنے آپکو گولی مار کر زندگی کا خاتمہ کر لینا، اس کے علاوہ چلتی ٹرین کے نیچے یا پھر کود کر
” خود کشی”
ہندوستان سے شائع ہونے والے میگزین “” ریڈف” کی رپورٹ کے مطابق ہندوستان میں ہر پندرہ منٹ کے اندر “خود کشی” کا ایک کیس سامنے آتا ہے، اور ہر تین منٹ میں سے ایک “خود کشی” کے لئے ذہنی طور پر تیار ہو جاتا ہے، “میگزین” کے مطابق سال 2002 میں تامل ناڈو میں 10982، کیرالہ میں 11300، کرناٹک میں 10934 اور آندھرا پردیش میں 9433 افراد نے
“خود کشی” سے اپنی زندگی کا خاتمہ کیا،
اکتوبر سال 2004 میں امریکی کے سابق صدر جارج ڈبلیو بش نے امریکہ میں نوجوانوں کی
“خود کشی” کے بڑھتے ہوئے واقعات کو روکنے کے لئے 82 ملین ڈالرز کی کثیر رقم کے بل پر دستخط کئے تھے،
دنیا بھر میں “خود کشی” کے بڑھتے ہوئے رجحانات کے تدارک کے لئے سماجی فلاحی اور حکومتی سطح پر گوری اقدامات کی آج اشد ضرورت پیش آ رہی ہے، اور اس معاشرتی ناسور کے تدارک اور روکنے کے لئے ہر سطح پر اقدامات کو یقینی بنایا جائے، “خود کشی” کے رونما ہونے والے سانحات کے لئے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے ذمہ داران یکساں طور پو اپنا اپنا کلیدی کردار ادا کریں، تاکہ ہمارے اردگرد پھیلے اس فرسودہ اور غیر فطری عمل کے خاتمہ کو بر وقت ممکن بنایا جا سکے.