personality an introduction 348

ایک شخصیت ایک تعارف

رپورٹ/اعجاز احمد طاہر اعوان

** شاعری اردو ادب میں دل کے
اظہار کا بہترین ذریعہ،،،
** اردو زبان اور ادب میں ترویج
و ترقی کی عکاسی کا منفرد
انداز
** اردو ادب کی ترویج و ترقی
کے لئے “قلم کار” اپنا کلیدی
کردار ادا کریں،،
** مجھے تخلیقی ادب کو فروغ
پانے میں دیر نہی لگئی،،

*اپنی محفل میں سرفراز رہنے دو
مجھے کہنے سے باز رہنے دو
**جس بات میں ہیں کئی راز پنہاں
اس بات کو راز رہنے دو
* * * * * * * *
*جینا ہو جیسے کوئی عذاب
پردیس میں
گنوا دیا ہم نے شباب پردیس میں

روشنیوں کے شہر کراچی سے تعلق رکھنے والے معروف شاعر ادیب اور معروف شخصیت سعید احمد سعید کسی تعارف کے محتاج نہیں، جو اس وقت ریاض سعودی عرب میں زندگی کے یادگار 31 سال گزارنے کے بعد آج کل کراچی میں مقیم ہیں، مزاحیہ اور سنجیدہ شاعری میں منفرد مقام رکھنے میں اپنا اچھوتا مقام رکھتے ہیں، شاعری کے ساتھ ساتھ “فن مصوری” میں بھی اپنا ایک الگ اور دلفریب مقام رکھتے ہیں،

سعید احمد سعید 1968 میں کراچی کے ایک ادبی گھرانے میں پیدا ہوئے، جناح کالج کراچی سے 1976 میں اعلی نمبروں سے گریجویشن کیا، 1974 میں کالج کی جانب سے شائع ہونے والے سالانہ میگزین “امیر خسرو ایڈیشن” کے ایڈیٹر کی ذمہ داریوں سے بھی منسلک رہے، 1984 میں “”ارینجڈ میرج” کے ذریعے رشتہ اذدواج سے منسلک ہو گئے، انکی لائف پارٹنر اور شریک حیات ناہید سعید بھی شاعرہ ہیں، ان کا کلام اردو ادب کے معروف جرائد میں با کثرت شائع ہوتا ہے، انکی اولاد میں ایک بیٹا علی سعید اور بیٹی ندا سعید ہیں، جنہوں نے کمپیوٹر سائنس میں اعلی ڈگری حاصل کی، اور آج کل عطاء الرحمن ریسرچ سنٹر کراچی اسکالر شپ حاصل کر کے جاب کر رہی ہیں، اور بیٹا علی سعید سر سید کمپیوٹر یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کر کے ایک کامیاب زندگی گزار رہے ہیں، سعید احمد سعید اور انکی اہلیہ ناہید سعید دونوں خوش قسمت اور لکی ہیں یہ انکی شب و روز کی محنت سے انکو دونوں کی طرف سے دلی سکون ہے،
سعید احمد سعید کی مزاحیہ شاعری کے حوالے سے نظموں اور غزلوں کی تعداد تقریبا” 300 سو زائد ہے، جبکہ سنجیدہ شاعری 200 سو کے لگ بھگ ہے، ان کا شعری مجموعہ “ادھورے خواب” پہلا مجموعہ کلام زیور اشاعت کے مراحل بڑی تیزی کے ساتھ طے ہو رہے ہیں انشاء اللہ اسی سال 2023 کے دوران شائع ہو کر ادبی شخصیات اور حلقوں کی دسترس میں ہو گا،

شعر و ادب کی طرف راغب ہونے کے بارے سعید احمد سعید نے کہا کہ شاعر کے اندر ادبی جراثیم پیدائشی ہوتے ہیں، کیونکہ میرے گھر کا ماحول بھی مکمل اور خالصتا” ادبی تھا اس کئے میرے اندر “”تخلیقی ادب” کو پروان چڑھنے میں زرا بھی فیر نہ لگئی، میں نے باقائدہ طور ہر پہلا شعر 1972 میں لکھا،،،
*کب سے ترس رہا ہوں اف انکی
دید کو
دل یہ کہہ رہا ہے آگ لگے اس عید کو
کتاب اور قاری کے درمیان میں پیدا ہونے والے “خلا” کے بارے میں سعید احمد سعید نے کہا کہ میرے خیال کے مطابق اس کے کئی عناصر ہیں، مثال کے طور پر نئی کتابوں کی اشاعت میں مشکلات، اس کے علاوہ نئی کتب کی اشاعت کے اخراجات میں ہو شربا اضافہ،
سعید احمد سعید نے اپنی گفتگو کے سلسلہ کو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ موجودہ معاشرے میں ادبی و تہذیبی اقدار ایک صحتمند روشن خیال، اور باشعور معاشرے میں ہی پنپ سکتی ہیں، اپنی زبان ، ثقافت اور انفرادیت کو باقی رکھے بغیر ان اقدار کو زندہ رکھنا انتہائی مشکل ہے،
اردو ادب کی ترویج و ترقی اور اس کے روشن اور تابناک مستقبل کے بارے سعید احمد سعید نے کہا کہ زبان اور روائتی ادب کو تنزلی سے بچانے کے لئے اردو ادب کو بچانے کے لئے اس سے وابستگی کے رشتے کو مضبوط اور مستحکم کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے، اور لکھاری اپنے “قلم” اور اپنے ادبی ذوق و شوق کے رشتے کو مزید ترقی سے ہمکنار کرنے کے لئے اپنا اپنا کلیدی کردار ادا کریں،
آخر میں سعید احمد سعید نے “PNP” کی انتظامیہ اور صحافتی ٹیم کا دل کی اتھا گہرائیوں سے شکریہ ادا کیا اور اردو ادب کی ترقی کے لئے انکی گرانقدر خدمات اور کوششوں کو خراج تحسین بھی پیش کیا،

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

ایک شخصیت ایک تعارف” ایک تبصرہ

  1. واہ سعید بہت اعلٰی تمہاری شخصیت کے کچھ پہلو ذمانہ طالب علمی میں ہی عریاں ہو گئے تھے ٹاون کمیٹی اسکول دور میں اب ماشاءاللہ نکھری نکھری لچھوں والی گفتگو کیا کہنے ۔
    خوش رھو آباد رھو ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں