آوازیں گونجتی ہیں
بازگشت
ہوا میں مل کر
بادبانوں کے
کشتیوں
بادلوں
پانیوں کے کانوں میں
گنگناتی ہیں
نغمے سناتی ہیں
اور تم اپنی سماعت کی
اس معجزہ رسائی سے
چونک کر
پل بھر کو رکتے ہو
حیرت زدہ سے
اور پھر سر کو جھٹک کر
مسکرا کر اک شبہ ء موہوم جانے
آگے بڑھ جاتے ہو
اگر تم رک سکو تو
اگر تم سن سکو تو
اک پکار جو کوئی سن نہ پایا
ایک قہقہہ جو کھو گیا تھا
کوئی خالی سی سسکی
مکئی کے کھیتوں میں
اک ہلکی سی لرزش
سورج کی کرن سے
کلی کا چٹکنا
وہ بے آواز آنسو
جو پرشور بہت تھا
شاید بہت سے کھونے والے
اپنے کچھ ان کہے نامے
ہوا کے سپرد کر کے
جا چکے ہیں
شاید اوپر کہیں بادلوں سے پرے
کوئی ایسی دنیا ہے
جو مرتی نہیں ہے
مگر مرنے سے پہلے ملتی نہیں ہے
کبھی جو تم تھم سکو تو
اور پھر سن سکو تو
وہ پیام سننا
گر سمجھ سکو تو
نمیرہ محسن
11 فروری 23
291