تحریر : سید فیاض حسین گیلانی
اسمبلیوں کی مدت ؛؛ کچھ دن قبل میں نے روزنامہ آزادی میں ایک خبر بریک کی تھی کہ جس کو ادارے نے احتیاطً تجزیہ کے طور پر شائع کیا تھا۔اس تجزیہ یا خبر کابنیادی کرکس یہ تھا کہ اسمبلیاں مدت پوری کریں گی۔ اور اس پرنہ صرف تمام سیاسی قیادت بلکہ کچھ اہم اداروں اور اشخاص کے درمیان غیر اعلانیہ فیصلہ ہو چکا ہے۔اس سلسلے میں خان صاحب کو فیس سیونگ واسطے کچھ آفر دی گئی مثلاً سیاسی بیانات قومی اسمبلی میں واپسی اور آئیندہ لیڈرآف اپوزیشن و چیئرمین پبلک اکاؤئنٹ کمیٹی وغیرہ۔ خان صاحب کو یہ بھی یقین دلایا گیا تھا کہ حکومت ان کے خلاف کوئی انتظامی کاروائی سے دور رہے گی۔ یعنی ان پر اور ان کے ساتھیوں پرکسی قسم کے مقدمات سے نہ صرف گریز کیا جائے گا بلکہ ان کو سیاسی ماحول کوگرمانے واسطے بھی مواقع مہیا کئے جائیں گے اور حکومت کوئی رکاوٹ نہ پیدا کرے گی۔یہاں پی ڈی ایم نے بہت ہوشیاری سے اسمبلی کے اندر کسی تبدیلی خاص کر پنجاب اسمبلی میں کسی مہم جوئی بارے بات نہ کی۔ البتہ ممکنہ طور پر آصف ذرداری نے گجرات کے چوہدروں کو یہ یقین دلا دیا تھا کہ پرویز الہی کی حکومت کو کوئی خطرہ نہیں۔لیکن اس تمام اریجمنٹ کے بعد ن لیگ کی قیادت کو یہ سمجھ آئی کہ آئیندہ چند ماہ ان کو بہرحال آئی ایم ایف کے آگے لیٹنا ہےاور مہنگائی و بیروزگاری کا ایک طوفان مذید آنا ہے۔ کیونکہ پہلے مفتع اسمائیل کے دور میں جو پٹرول و بجلی کے حوالے سے ہوا ان کا سیاسی خمیازہ ان کو بھگنا پڑھا تھا۔ اوپر سے عمران خان نے سائفر کو بہت باریکی سے عوام میں اس طرح لہرا دیا تھا کہ پاکستان کا عام شہری عمران حکومت کا خاتمہ سائفر کو ہی سمجھنا شروع ہوگیا۔ اور اسی وجہ سے خیبر پختون خواہ کہ جہاں پہلے مرحلہ کے بلدیاتی انتخابات میں اپوزیشن خاص کر جمعیت علماء اسلام فضل الرحمن گروپ نے تحریک انصاف کودھو دیا تھا وہاں دوسرے مرحلے میں تحریک انصاف چھا گئی۔ اسی طرح بلوچستان میں بھی جمعیت علماءاسلام اور پاکستان پیپلز پارٹی جیت گئی لیکن اب وہاں پھر تحریک انصاف مقبول ہوتی جا رہی ہے۔ اور آخری ضرب پنجاب میں ہونے والے ضمنی انتخابات میں لگی کہ جہاں حکومت نے بہت سوچ بچار کے بعد بہت ہی مخصوص حلقے چنے جہاں حکومت کو یقین تھا کہ ن لیگ تحریک انصاف کو وائیٹ واش کردے گی لیکن نتیجہ بہت خلاف توقع نکلا۔ اور عمران خان خود امیدوار بن کر باآسانی جیت گئے۔ اس پیش رفت سےن لیگ کے کان کھڑے ہوگئے۔ اور انہوں نے جب اپنی جگہ جمع تفریق کی تو معلوم ہوا کہ اس تمام سیاسی صورت حال میں تباہی تو صرف انکی ہے۔ کیونکہ اس معاشی صورت حال میں عمران خان دو ہزارہ اٹھارہ سے بھی ذیادہ مقبول ہو رہا۔ دوسرا پیپلز پارٹی سندھ میں نہ صرف مذید بہتر ہو رہی ہے بلکہ اب وہ بلوچستان پر بھی کافی ہاتھ صاف کرکے خیبر پختون خواہ اور جنوبی پنجاب میں بھی پنجے گاڑھ رہی ہے۔ کیونکہ یہ تو حقیقت ہےکہ آصف ذرداری نے بہت چالاکی سے سپیکر شپ بھی لے لی اورآئیندہ یوسف رضا گیلانی کی سینٹ کی چیرمین شپ بھی پکی کر لی۔جبکہ اپنے بیٹے کو وزیر خارجہ بنوا کر بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ سے ذاتی تعلقات بنانے کا سہنری موقع میسر کردیا۔ جبکہ اطلاعات داخلہ قانون اور خاص کرخزانہ کا قلم دان ن کے حوالے۔یعنی مخالفین پرالزامات ہوں تومجرم اطلاعات یعنی ن لیگ۔کوئی انتظامی کاروائی تو ذمہ دار رانا نثاء ﷲ اسی طرح قانونی و عدالتی پیچدگی کے ذمہ دار ن لیگی۔ اورسب سےاہم تمام مہنگائی کی گالیاں ن لیگ کو۔ذرداری کا سیاسی حب سندھ پھیل کربلوچستان و خیبر پختون خواہ تک جب کہ ن لیگ کا سیاسی قلعہ پنجاب خطرے کا شکار۔سو اس تمام صورت حال نے ن لیگ کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ جب تک پنجاب کا انتظامی اختیار ان کے پاس نہ ہوگا تب تک ہر گزرنے والے دن کیساتھ کم از کم جو انکی سیاست کا فیصلہ کن علاقہ ہے یعنی شمالی پنجاب وہاں تحریک انصاف نقیب لگاتی جائے گی اور اس کا منطقی نتجہ یہ نکلنا ہے کہ اس کے اتحادی خاص کر بڑے اتحادی یعنی پی پی پی اور حمعیت علماء اسلام اگر کچھ ذیادہ نہ بھی حاصل کریں تو کم از کم کچھ کھونے کی پوزیشن میں بھی نہیں سو وہ نہ صرف سیاسی مقبولیت کم سے کم کرتی جا رہی ہے بلکہ شاید آئیندہ انتخابات کے نتائج کشمیر و گلگت بلستان والے ہوں جہاں ن لیگ حزب اختلاف بھی نہیں ۔ اسی وجہ سے انہوں نے اندرونی خانہ یہ کوشش کی کہ پنجاب میں رجیم چینج کر دیا جائے۔ باخبر لوگوں کو یہ بھی معلوم ہے کہ حکومت کی شرط پر چوہدری شاید پی ڈی ایم کیساتھ بھی ملنے واسطے تقریباً تیار تھے لیکن ن لیگ بہر صورت پنجاب کو حمزہ شریف کے حوالے کرنے پر بضد تھی۔ اور یہی وجہ بنی کہ عمران خان نے باقاعدہ چوہدری پرویز کو اعتماد میں لیکر اسمبلیاں توڑ دی۔ لیکن قومی اسمبلی اور دوسری دونوں اسمبلیاں ابھی تک قائم ہیں۔ ویسے بھی بطور آخری ہتھیار عمران خان نے جو پتہ کھیلا اس کے بعد کی پیش رفت عمران خان کو واضح اشارہ ہے کہ طاقتور حلقے عمران خان کے اس فعل سے مطمن نہیں ہیں اور شاید انہوں نے حکومت کو پیغام دے دیا ہے کہ اب جیسا مناسب سمجھیں کریں۔ وہ دخل نہیں دیں گے۔ اس وجہ سے اب شاید آنے والے دنوں میں تحریک انصاف پر مذید سیاسی و انتظامی دباؤ پڑے۔ اور تحریک انصاف کو شاید اسکی سیاسی قیمت دینا پڑے کیونکہ اب تو حکومتی وزراء خاص کر ن لیگ والے نجی محافل میں بہت کھل کر اس بات کا اظہار کرتے ہیں کہ اب کہاں ایلکشن اب تو شاید ایلکشن اکتوبر دو ہزار تئیس سے بھی آگے جائیں۔ بلکہ اس واسطے اپریل دو ہزار چوبیس کو کنفرم کر کے بتایا جا رہا ہے ۔ اسکی آئینی و قانونی توجیحات گھڑی جا رہی ہیں۔ المختصر یہ تمام روداد تھی دو اسمبلیوں کی تحلیل کی۔اب میں آتا ہوں ان دوستوں کی طرف جو میرے تجزیے کو غلط ثابت کر کے خوشی کا اظہار کر رہیں ہیں حالانکہ اس میں خوشی کا کوئی پہلو بنتا نہیں۔ بہرحال چونکہ تحریک انصاف کے کارکنان مجھے اپنا خواہ مخواہ مخالف سمجھتے ہیں سو وہ ذیادہ خوشی اور طنز کا اظہار کر رہے ہیں۔ ان واسطے عرض ہے کہ اول تو کسی بھی صحافتی یا سیاسی معیار پر میرا تجزیہ غلط ثابت نہ ہوا۔ کیونکہ اب بھی ساٹھ فی صد سے ذائد اسمبلیاں تو موجود ہیں۔صرف دو ہی ٹوٹی باقی تو قائم ہیں۔ دوسرا کسی بھی تجزیہ یا خبر کا غلط ثابت ہوجانا نااہلی کا کوئی معیار نہیں۔ بڑے بڑے اعلی سیاسی تجزیہ نگاروں اور بہت بین الاقوامی شہرت رکھنے والے کالم نگاروں کے بیشمار تجزئے غلط ثابت ہو جاتے ہیں۔ ایک بات ذہن میں رکھیں تجزیہ کے دو بنیادی عوامل ہوتے ہیں ظاہری صورت حال اس مسلے میں سیاسی صورت حال یہ تھی اور کوئی بھی باشعور شخص عمران خان سے یہ توقع نہیں کرتا تھا اور اب تو خود تحریک انصاف والے بھی پچھتا رہیں ہیں کہ ان سے یہ ایک سنگین سیاسی غلطی ہوگئی۔ اور دوسری وجہ ہوتی ہے آپ تک پہچنے والی خبر۔ میں اپنی خبر پر اب بھی قائم ہوں کہ اعلی سطح پر جہاں تمام سیاسی قیادت ریاستی قیادت اور کچھ خاص طاقتور حلقے موجود تھے یہ فیصلہ ہوا تھا کہ اسمبلیاں مدت پوری کریں گی۔ اور آئیندہ انتخابات آئین کے مطابق وقت مقررہ پر ہو جائیں گے۔کیونکہ مجھے یہ خبر کچھ ان مستند ترین حلقوں سے ملی تھی کہ جن کے براراست رابطے ملک کی اعلی ترین سیاسی قیادت سے ہیں۔ اور جب یہ تجزیہ روزنامہ آزادی میں بریک ہوا تو مجھ سے کافی سیاسی و صحافتی لوگوں نے معلوم کرنےکی کوشش کی کہ میرا سورس کیا تھا جو کہ ظاہر ہے کسی صورت بتایا نہیں جا سکتا لیکن بہرحال اس کے شائع ہونے کے چند دن بعد یہ اطلاع راولپنڈی و اسلام آباد کے پریس کلبوں میں عام ہو چکی تھی اور تقریباً ہر ورکنگ صحافی اور سیاسی کارکن اس سے آگاہ ہو چکا تھا۔ بلکہ بڑے میڈیا گروپس کے نامور ٹی وی اینکروں نے اس پر پروگرام بھی کئے۔المختصر یہ خبر بالکل صیح تھی اور سب طے تھا لیکن اول اسکو ن لیگ نے تکنیکی بنیادوں پر ختم کرنے کی کوشش کی اور پھر تحریک انصاف نے بہت واضح سیاسی طور پراس کو ختم کر دیا۔عقل مند صرف یہ غور کریں کہ آج بھی چوہدری پرویز الہی کھل کراور تحریک انصاف کے بہت سے سمجھدار سینئر راہنما دبے لغظوں میں بند کمروں میں اس عمل پر شدید تنقید کر رہیں ہیں۔ اوران کو پریشانی موجودہ سیاسی حکومت سے نہیں بلکہ ان کا مسلہ ان حلقوں کی ناراضگی و غصہ ہے جو ممکنہ طورپر ہو سکتا ہے۔ کیونکہ دو صوبوں میں نگران حکومتیں ہوں۔کشمیر و گلگت بلستان میں تحریک انصاف کی حکومت بلوچستان میں مخلوط حکومت بس ایک سندھ میں وہ بھی سب سے ذیادہ راوہ دار و برداشت رکھنے والی سیاسی قوت پی پی کی ہو۔ اور اسلام آباد میں ایک نہایت ہی لولی لنگڑی کمذور حکومت ۔ جو اب عوام میں غیر مقبولیت کی معراج پر ہےتو وہ تحریک انصاف کا کیا نقصان کر سکتی ہے۔ہاں اگرمقتدر حلقوں سے آپ وعدہ خلافی کریں گےاور انکی غیر ضروری مخالفت کریں گے تو پھر اسکی ایک سیاسی قیمت آپ کو بہرحال دینا ہوتی ہے اور تحریک انصاف نے شاید اب یہ سیاسی قیمت دینا شروع کر دی ہے۔ بلکہ اسکی پہلی قسط عمران خان پر مقدمات خاص کر ٹیرن خان والا مقدمہ پھر فواد چوہدری ۔ شہر یار آفریدی شاندانہ گلزار اور شیخ رشید وغیرہ پر مقدمات کی ایک سیریز شاید اسی کا شاخسانہ ہے۔ بہرحال آخر میں ہم اتنا ہی کہنا چاہتے ہیں کہ ہم اس تجزیہ یا خبر کو آج بھی قبول کرتے ہیں اور اس میں درج ایک ایک لفظ کی ذمہ داری لینے واسطے تیار ہیں۔ یہ خبر یا تجزیہ اپنی اصل میں نہ غلط تھا اور نہ ہے۔ البتہ ایک فریق کی جانب سے خلاف ورزی کی گئی۔ سواب وہی بھگتیں۔ fayazsyed111@gmail.com
171