** میری آواز *
کالم نویس/اعجاز احمد طاہر اعوان
ایک محتاط اندازے کے مطابق اس وقت کراچی کی آبادی تین کروڑ سے بھی تجاوز کر چکی ہے، اور آبادی میں مسلسل تیزی کے ساتھ
اضافہ بھی ہو رہا ہے، اور مسائل کی رفتار بھی اسی تیزی کے ساتھ بڑھتی ہی جا رہی ہے، اور سب یہ صورتحال ہے کہ کراچی کے مسائل نے “انبار” کی شکل اختیار کر لی ہے، اس وقت کراچی میں روزانہ کی بنیاد پر شاہراہوں پر رونما ہونے والے حادثات میں بھی بتدریج اضافہ ہی ہو رہا ہے، بڑھتے ہوئے حادثات کے تدارک اور روک تھام کے لئے پیدل چلنے اور روڈ کی کراسنگ کے لئے عوام الناس کی سہولت کو جانوں کے تحظ کو مدنظر رکھتے ہوئے شہر کی اہم سڑکوں پر
“”OVER FLY CROSSING BRIDGE” “اوور فلائی کراسنگ برج” بنائے گئے ہیں، تاکہ عورتیں بچے اور بزرگ افراد روڈ کو باآسانی ایک سائیڈ سے دوسری جانب آ جا سکیں،
ان اور فلائی کراسنگ برج” کو جن مقاصد اور سہولت کے پیش نظر بنیا گیا تھا، لگتا ہے کہ وہ مقصد پورا نہی ہو رہا، ان “فلائی کراسنگ برج” پر ایک مخصوص گروپ اور مافیا نے ” زبردستی” قبضہ کیا ہوا ہے، ان برج پر پیر فقیر، مانگنے والے، چشمے فروخت کرنے والے، موبائل کی سم فروخت کرنے والے، وزن کرنے کی مشین، مردوں کے لئے مختلف اشیاء اور دیگر اشیاء کی خرید و فروخت کا دن بھر کے مخصوص اوقات میں باکثرت دھندہ ہو رہا ہے، اور انہیں کوئی پوچھنے والا نہی ہے، اندرون شہر کے اندر اس وقت “اوور فلائی کراسنگ برج” کی تعداد تقریبا” 5 سے 6 ہزار کے لگ بھگ ہے.
ان “اوور فلائی کراسنگ برج” میں سے بعض کی حالت اس قدر خستہ اور نا گفتہ حالت ہے، جگہ جگہ سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار اور جگہ جگہ گندگی کے ڈھیر، غلاظت کے ڈھیر لگے نظر آتے ہیں، سالہا سال سے صاف ستھرائی کو یکسر نظر انداز کیا جا رہا ہے، سٹی گورنمنٹ کے خاکروب تو روزانہ کی بنیاد پر صفائی ستھرائی کرتے ہیں مگر “”اور فلائی کراسنگ برج” کی طرف کبھی بھول کر توجہ نہی دی جاتی، جس سے “برج” کے اوپر گندگی اور کچرے کے انبار نظر آتے ہیں، یہ عدم توجہی کا ثبوت مسلسل ہر گزرنے والے کو نظر آتا ہے،ان میں سے تو اکثر “برج” ٹوٹے پھوٹے اور سالہا سال سے رنگ تک نہی کیا گیا،
ان “اوور فلائی کراسنگ برج” پر مختلف کاروباری کمپنیوں کی طرف سے لوہے کے بڑے بڑے وزنی “”سائن بورڈ” آویزاں کئے گئے تھے جو اچانک طونافی بارشوں اور تیز ہواوں سے زمین پر گر گئے جس سے جانی اور مالی نقصان اور خسارہ بھی برداشت کرنا پڑا، سٹی گورنمنٹ اور سپریم کورٹ آف پاکستان کی مداخلت اور کاروائی کے پیش نظر ایک حکم نامہ کے ذریعے یہ تمام سائن بورڈ ہٹھانے کے احکامات دینے کے بعد فوری طور پر یہ سب ہیوی سائن بورڈ “برجز” سے اٹھا دئے گئے، اور پھر اس حکم نامہ کے بد دوبارہ یہ سائن بورڈ نہی لگائے گئے مگر رفتہ رفتہ اندرون شہر کی اکثر شاہراہوں پر یہ سائن بورڈ پھر سے دوبارہ لگنے شروع ہو گئے ہیں اور نظر بھی آ رہے ہیں،
کراچی کی اہم شاہراہوں پر بنائے گئے یہ برج آبادی کے لحاظ سے انتہائی کم ہیں، جس سے اکثر لوگوں کو ایک سائیڈ سے روڈ کی دوسری جانب جانے میں دقت اور مشکلات کا سامنا سے گزرنا پڑتا ہے، ضرورت اس بات کی ہے، کہ آبادی کے بڑھنے کے تناسب کو مدنظر رکھتے ہوئے اہم شاہراہوں پر مزید “اوعر فلائی کراسنگ برج” بلاتاخیر بنائے جائیں، تاکہ روڈز پار کرتے وقت اور دوران کراسنگ حادثات کو روکا جا سکے، ماضی میں یہ اندازہ اور منصوبہ بندی کی گئی تھی کی ہر ماہ آبادی اور شاہراہوں کی ضرورت کو مد نظر رکھ کر ہر ماہ تین نئے برج بنائے جائیں گئے، مگر اس منصوبہ بندی اور پلاننگ پر آج تک عمل نہی ہو سکا،
یہ امر بھی قابل ذکر یے کہ جسمانی اعضاء سے محروم افراد کی سہولت اور ضرورت پر آج تک غور نہی کیا گیا، انہیں روڈ سے دوسری طرف جانے کے لئے انتہائی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اور اکثر معذور افراد وہیل چئیر کا بھی استعمال کرتے ہیں، جسمانی اعضاء سے محروم اور اپاہج افراد کی سہولت کو آج تک یکسر نظر انداز ہی رکھا گیا ہے، حکومت وقت اور سندھ سٹی گورنمنٹ اس سنگین مسلہ کو اولیت دے کر حل کرے، اور جہاں کروڑوں روپے شہر کی ترقی کے لئے سالانہ بجٹ میں سے معذور افراد کی سہولت اور احساس مندی کے جزبے کو دیکھتے ہوئے “اوور فلائی برج” پر وہیل چیئر کو لانے لے جانے کے لئے فوری اور بلا تاخیر توجہ دی جائے، اور تمام نئے برج بناتے وقت معذور افراد کی ضرورت اور سہولت کو بھی مد نظر رکھ کر اس دیرینہ اور سنگین مسلہ کو حل کیا جائے، تاکہ یہ ہمارے معاشرے “پیرا لائز” افراد کو بھی اہمیت دی جا سکے اور وہ بھی “اوور فلائی برج” کی اس سہولت سے استفادہ حاصل کر سکیں، اندورن شہر بڑھتے ہوئے روڈ ایکسیڈنٹ کا بھی تدارک کیا جا سکے،اہم شاہراہوں پر نئے “”اوور فلائی کراسنگ برج” بنانا وقت کی اہم ضرورت بھی ہے، حکومت سندھ اس اہم اور دیگر عوامی مسائل کی طرف توجہ دینا اپنا فرض سمجھ کر بلا تاخیر حل کیا جائے.