my voice Ejaz Ahmad Tahir Awan 261

میری آواز

** میری آواز **

کالم نویس/اعجاز احمد طاہر اعوان

کراچی کے سنگین اور پیچیدہ مسائل کی طرف نشاندہی کے لئے میرا یہ پختہ عزم اور ارادہ کہ میں اپنے “قلم” کو ان سنجیدہ مسائل سے نکالنے کے لئے “جنبش” دیتا رہونگا، اس وقت کراچی پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ، شہر اور اکنامک ہب کا بھی درجہ رکھتا ہے، مگر کراچی کے اس روشنیوں سے بھر شہر قائد کی پیشانی پر ایک “دھبہ” ضرور سب کو نظر آ رہا ہے، اور وہ ہے کراچی میں پیشہ ور، مانگنے والے، اور بھکاری و گداگروں کی بھرمار ہے،
“””Street Beggars in Karachi””
یہ پروفیشنل گداگر صبح سویرے ہی اپنے اپنے مخصوص علاقوں کے لئے اپنے گھروں سے باہر نکل پڑتے ہیں، یہ بھکاریوں کا منظم اور فعال مافیا گروہ ہے، جو باکثرت طلوع آفتاب کے ساتھ ہی شاہراہوں، ٹریفک سگنل، سڑکوں، بڑی بری سپر مارکیٹس، اور گلی محلوں کے اندر خاص طور پر اپنے ہفتہ وار مخصوص دنوں کے اندر مانگتے ہعئے نظر آتے ہیں، اور اکثر ان بھیک مانگنے والوں میں آپکو خواتین اپنے شیر خوار بچوں کو گود میں لئے بھی دکھتی ہوں گئیں، ان بھیک مانگنے والوں میں ایک بہت بڑی تعداد ہیجڑوں اور خواجہ سراوں کی بھی شامل ہوتی ہے،

اس وقت ایک محتاط اندازے کے مطابق کراچی میں بھیک مانگنے والے مافیا گروہ ماہانہ ہزاروں اور لاکھوں روپے کما لیتا ہے، ان کی ایک دن کی صرف 2000 اور 3000 ہزار روپے تک آمدن باآسانی ہو جاتی ہے، ان بھیک مانگنے والوں کے پاس اکثر اپنی ذاتی گاڑیاں اور اپنے ذاتی فلیٹس بھی ہیں، اور بڑی شاہانہ زندگی گزارتے ہیں، زیادہ تر یہ بھاری اور مانگنے والے کراچی سے باہر آ کر اس دھندہ سے منسلک ہو جاتے ہیں، اور پھر یہی کے ہمیشہ کے لئے ہو کر رہ جاتے ہیں، دن ہو یا پھر رات بھیک مانگنے والے آپ کو شاہراہوں پر ضرور ملیں گئے،

بھیک مانگنے والوں کا ایک سربراہ اور منظم گروہ بھی ہے جس نے کراچی کے مخصوص علاقوں کے اندر “جھگیاں” اور کرائے پر فلیٹس بھی لئے ہوئے ہیں، اور وہ ان بھکاریوں کو “پک اینڈ ڈراپ” کی سہولت بھی فراہم کرتے ہیں،یہاں ایک بات کا ضرور ذکر کرونگا کہ دنیا بھر میں فو نمبر کام کے دھندہ میں “ایمانداری” کوٹ کوٹ کر بھری ہوتی ہے، ان بھکاریوں کا سربراہ بڑی عیاشی اور آرام کی زندگی گزارتا ہے، اور پوری دیانتداری کے ساتھ روزانہ کی بنیاد پر گروہ کا سربراہ طے شدہ معاوضہ ادا کر دیتا ہے، بھاریوں کے سربراہ نے تمام بھیک مانگنے والوں کو علاقے اور ایریا مخصوص کئے ہوئے ہیں، اور پھر کسی اجنبی اور آنے والے کو اپنے علاقہ کے اندر نہی آنے دیتے،

کراچی “پیشہ ور گداگروں” کے لئے کدی جنت سے کم نہی ہے جو بھکاری ایک بار اس دھندے میں شامل ہو جاتا ہے وہ پھر کسی اور دوسرے کام کبھی سوچ بھی نہی سکتا، ہر گداگر کع مانگنے کی باقائدہ تربیت بھی دی جاتی ہے اور جب انکی تربیت مکمل ہو جاتی ہے تو پھر وہ مکمل بھروسے کے ساتھ اس دھندے سے منسلک ہو جاتے ہیں، بھیک مانگنے والا غیر تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود ہوشیار اور سمجھدار ہوتا ہے، اور مکمل ن
ہنر کے تمام گر بھی چند ہی مہینوں کے اندر جان جاتا ہے،

ایک محتاط اندازے کے مطابق اس وقت کراچی اور اردگرد کے علاقوں میں بھیک مانگنے والوں کی تعداد 28 ہزار کے لگ بھگ ہے، اور اکثر بھیک مانگنے والوں کے ساتھ ان کے اپنے بچے نہی ہوتے، بلکہ روزانہ کی بنیاد پر انہیں مخصوص پیسے اور معاوضہ دیا جاتا ہے، اس کے ساتھ ساتھ اکثر خواتین کی گود میں اٹھائے بچے بھی ان کے نہی ہعتے بلکہ انہیں بھیک مانگنے کے لئے سہارا اور وسیلہ بنایا جاتا ہے،

کراچی کی اہم شاہراہوں اور مخصوص علاقوں کے اندر ہر ایریا میں 100 سے ڈیڈھ سو تک بھیک کے دھندہ کے لئے نکلتے ہیں، 924 کے قریب شہر کے ہر علاقہ کی اہم چورنگیوں پر اور گلی محلوں کے اند مانگنے والوں کی تعداد اس کے علاوہ ہی سمبھی جائے، بھیک مانگنے والے اس دھندہ کے اندر دن بدن اضافہ بڑھتا ہی جا رہا ہے، ان بھیک مانگنے والوں کے اندر کچھ بچے گاڑیوں کی صفائی ستھرائی سے بھی جڑے ہوئے ہیں، ہر بھکاری کو ہر شخص 10 روپے تک تو آسانی سے دے ہی دیتا ہے،

کراچی شہر کو ان پروفیشنل گداگروں کی لعنت سے پاک کرنے کے لئے کوئی “ایکشن پلان” تیار ہی نہی کیا گیا، اور گداگروں کو مانگنے کی کھلی چھٹی دے رکھی ہے، گداگروں کی اس کثرت سے مانگنے والوں کے درمیان یہ امتیاز کرنا بھی اب مشکل اور دشوار ہو گیا ہے بلکہ ختم ہی ہوتا جا رہا ہے، کہ حقیقی طور پر مالی مدد کا حق دار اور مستحق کون ہے؟ ان بھیک مانگنے والوں کے اندر بہت بڑی تعداد غیر مسلم افراد کی بھی ہے، بھیک مانگنے کے دھندہ کو سب سے زیادہ آسان تصور کیا جانے لگا ہے،

ایک اور تحقیق بھی سامنے آئی ہے کہ ان بھیک مانگنے والوں میں اکثر کراچی سے باہر کے شہروں اعر دوسرے غیر ممالک سے بھی بھکاریوں کا روپ دھار کر آتے ہیں، خاص طور پر رمضان المبارک اور عیدین کے مواقع پر، اس دھندہ کی روک تھام اور تدارک کے لئے حکومت سندھ اور یہاں کی “”NGO’s” کو متحرک ہونا پڑے گا، اس وقت کراچی کا یہ ایک اہم ایشو کی صورت اختیار کر چکا ہے، اب سوچنے کا موقع بھی آ گیا ہے کہ اس دھندہ کو روکنے کے لئے کون کون اپنی ذمہ داری کا ثبوت دے گا

“””آخر بلی کے گلے میں کون گھنٹی باندھے گا””

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں