my voice Ejaz Ahmad Tahir Awan 140

میری آواز

کالم نویس/اعجاز احمد طاہر اعوان

کراچی کی آبادی جس تیز رفتاری کے ساتھ جیسے جیسے بڑھ رہی ہے ویسے ویسے اس کے مسائل بھی وقت کی رفتار کے ساتھ بڑھتے جا رہے ہیں، انہی مسائل کے ساتھ جڑے کچھ عوامی حساس مسائل کے بارے بھی ہم آپکو اپنے کالم “میری آواز” میں بتانے کی ایک چھوٹی سی کوشش کرتے ہیں.

کراچی کے گلستان جوھر سمیت دیگر بہت سارے علاقوں میں مسائل کی نوعیت بھی مختلف ہی ہوتی ہے، اس وقت گلستان جوہر کے بلاک 3A اور اردگرد میں بہت ساری خانہ بدوشوں کی بستیاں قائم ہیں، جن میں ہزاروں کی تعداد میں لوگ زندگی کے ساتھ جڑے اپنا اپنا گزر بسر کرنے پر مجبور ہیں، گلستان جوہر کے وسیع علاقے میں ہزاروں کی تعداد میں غریبوں نے “جھگیاں” لگائی ہوئی ہیں اور زندگی کی گاڑی رواں دواں ہے، ان “جھگیوں” کے اندر لاتعداد شعبہء طب سے منسلک جعلی ڈگری ہولڈر دو نمبر ڈاکٹر بن کر بیچارے ان پڑھ اور غیر تعلیم یافتہ لوگ بیٹھے ہیں اور اپنے لئے مختلف بیماریوں کے لئے ان خطرناک اور نا تجربہ ڈاکٹروں کے ہاتھوں سے لٹنے پر مجبور ہیں.

باعث افسوس ہے کہ یہ جعلی اور منظم جعلی ڈگری ہولڈر ڈاکٹر قانون نافذ کرنے والے اور سندھ منسٹری آف ہیلتھ کی آنکھوں میں کھلے عام دھول ڈال رہے ہیں جنہیں کوئی پوچھنے والا نہی اور نہ ہی آج تک وہ کسی کی گرفت میں ہی آ سکے ہیں، اور کھلے عام جعلی ڈگریوں کے ساتھ اس دھندہ کو گزشتہ سالہا سال سے چلا رہے ہیں اور اپنے دھندہ کے ساتھ منسلک ہیں، یہ جعلی ڈاکٹر کا لبادہ اوڑھے کم تعلیم یافتہ غریب افراد کو لوٹ رہے ہیں، یہ جعلی ڈاکٹر اور جعلی ڈگریوں کی آڑ میں دن رات غیر قانونی طریقہ سے غریبوں کی مجبوریوں کا کھلے عام فائدہ حاصل کر رہے ہیں، نہ انہیں اللہ کا خوف اور نہ ہی کسی ادارے کی طرف سے گرفتاری کا ڈر، کچھ عرصہ قبل الیکٹرانک میڈیا کی طرف سے ان کے خلاف تادیبی کاروائی کا سلسلہ شروع کیا گیا، مگر باوثوق ذرائع کے مطابق ان الکیٹرانک میڈیا سے منسل صحافی بھی خرید لئے گئے، اور پھر کبھی کدی میڈیا کی طرف سے ان جعلی ڈاکٹروں کے خلاف کوئی کاروائی منظر عام پر نہ آ سکی، جس کا نتیجہ آج بھی ہمارے سامنے ہے کہ یہ معاشارے کے ناسور کھلے عام اور دیدہ دلیری کے ساتھ نام نہاد جعلی ڈاکٹر اپنی دو نمبر کی سرگرمیوں کے سلسلہ کو جاری و ساری رکھے ہوئے ہیں، اور کوئی آج تک انہیں پوچھنے والا پیدا ہی نہی ہو سکا.

گلستان جوہر کی ان بستیوں میں آباد غریب اور ان پڑھ طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں، “جھگیوں” میں بیٹھے یہ دھوکہ باز ڈاکٹر اپنے دھندہ کے ساتھ انہیں جعلی دواں کے ساتھ دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں جو اپنے علاج معالجہ کی مہنگی ضرورتوں اور ڈاکٹروں کی مہنگی ترین فیسیں ادا کرنے سے قاصر ہیں، ان کی اس مجبوری کا کھلے عام فائدہ اٹھایا جا رہا ہے، ان “جھگیوں” کے اند جعلی طبیب اور ڈاکٹروں کی ایک بہت بڑی تعداد موجود ہے، جن کی وارداتوں کا یہ طریقہ ہے کہ یہ سب جعلی ڈاکٹر صبح کے اوقات کی بجائے سہہ پہر 4 بجے کے بعد اپنے اپنے کلینک کے اندر آتے ہیں تاکہ وہ کسی قانون یا پھر کی وزارت صحت کی کسی تفتیشی ٹیم اور چیکنگ ٹیم کے ہتھے نہ چڑھ جائیں.

یہ سب جعلی ڈاکٹر ایک منظم اور ہوشیار گروپ کی شکل اختیار کر چکا ہے، اور گزشتہ کئی سالوں سے یہ منظم گروہ اور سادہ لوگوں کی مجبوریوں کا کھلے عام فائدہ اٹھا رہا ہے، وزارت صحت سندھ گورنمنٹ کی طرف سے آج تک ان جعلی ڈاکٹروں کے خلاف کاروائی کا آغاز نہی کیا گیا، گلستان جوہر پولیس اسٹیشن بھی چند قدم کے فاصلے پر ہے یہ منظم ڈاکٹروں کا گروہ پولیس والوں کی سرپرستی اور چھتری کے نیچے کھلم کھلا یہ غیر قانونی دھندہ کو چلایا جا رہا ہے،، کراچی کے گلستان جوہر کا علاقہ وسیع و عریض علاقہ پر پھیلا ہوا ہے، جس میں کامران چورنگی، منور چورنگی،سفورہ، گوٹھ رابعہ سٹی، بھٹائیہ آباد، اور اردگرد کے علاقوں تک پھیلا ہوا ہے، جعلی ڈاکٹروں کے جعلی کلینک جگہ جگہ پر ان “جھگیوں” کے اندر باکثرت کھلے ہعئے ہیں، ان کلینک پر کوئی اپنے ہروفیشن کے حوالے سے کعئی “بورڈ بھی آویزاں” نہی کیا گیا، پوری دیدادہ دلیری کے ساتھ قانون نافذ کرنے والوں کی ناک کے نیچے یہ کام اور جعلی دھندہ ہو رہا ہے.
ان “جھگیوں” کے اندر بیٹھے یہ جعلی ڈاکٹر مریضوں سے 200 سے 150 روپے تک کی باقائدہ فیس بھی چارج کرتے ہیں اور وہ بھی جعلی ڈگری اور نہ ہونے کے باوجود،،،؟ جعلی ڈاکٹروں کا یہ منظم گروہ اپنا دھندہ گزشتہ کئی سالوں سے جاری رکھے ہوئے ہے، یہ غیر فطری اور غیر انسانی فعل کے تدارک کے لئے آج تک کوئی اقدام نہی اٹھایا گیا، جس سے ان جعلی ڈاکٹروں کے حوصلے بلند بھی ہو چکے ہیں، اور یہ سب بھلا خوف و خطر اپنے جعلی سلسلہ کو جاری بھی رکھے ہوئے ہیں، ملک کا قانون ان جعلی ڈاکٹروں کے آگے اپنی “”آنکھوں پر سیاہ پٹی”” باندھے ہوئے ہے، یہ حقائق بھی منظر عام آئے ہیں کہ ان “جھگیوں میں بیٹھے جعلی ڈاکٹروں سے ماہانہ بنیادوں پر گلستان جوہر تھانے کا عملہ
“”ایس ایچ او”” سمیت پورا اسٹاف “ماہانہ بھتہ” بھی وصول کرتا ہے.
گلستان جوہر کی سن “جھگیوں” میں بیٹھے یہ جعلی ڈاکٹر دن دھاڑے لوگوں کی زندگیوں سے بھی کھیل رہے ہیں جنہیں کوئی پوچھنے والا اور ان کے خلاف کوئی کاروائی کنے والا “پیدا ہی نہی” ہوا،
باعث افسوس اور لمحہء فکریہ ہے ان اداروں کے لئے کہ آج تک کوئی سخت اقدام ان کے خلاف اٹھایا ہی نہی جا سکا، قانون شکنی کے متکب یہ ملک و قوم کے ناسور کھلے عام لوگوں کو اپنے جعلی دھندہ کے ذریعے سالہاسال سے لوٹنے کے دھندہ میں ملوث ہیں، کیا کبھی ان جعلی ڈاکٹروں کے خلاف کبھی کوئی تادیبی کاروائی عمل میں لائی جائے گئی، آج کا یہ سوال ہم سب کے لئے.

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں