Syed Fayaz Hussain Gilani 215

لیجنڈ آف مولا جٹ تنقیدی جائزہ

تحریر : سید فیاض حسین گیلانی
لیجنڈ آف مولا جٹ تنقیدی جائزہ۔ آج ہم نے ایک بار پھر سیاست و معاشرتی مسائل سے ہٹ کر نسبتا ہلکے اور رنگین موضوع کا انتخاب کیا ہے۔ کیونکہ پاکستانی سینیما کی تاریخ میں ایک فلم انیس سو اٹھتہر میں ریلیز ہوئی تھی کہ جس کا نام مولا جٹ تھا۔یہ فلم بنیادی طور پر احمد ندیم قاسمی کے ناول پر بننے والی فلم جو حسن عسکری نے بنائی تھی وحشی جٹ کے نام سے اسی کا سیکوئل یا پھیلاؤ کہہ لیں تھا۔وحشی جٹ بھی بیشک اس دور میں بہت کامیاب فلم تھی لیکن مولا جٹ نے تو بڑا ریکارڈ بنا دیا۔ لاہور کے شاید شبستان سینما میں اسکی نمائش سالوں جاری رہی اور میرا خیال ہے کہ یہ واحد پاکستانی فلم تھی کہ جس کے ڈائیلاگز کو سیاست کے ایوانوں عدلیہ کی کہچریوں پریس کانفرنسوں میں بیشمار بار کورٹ کیا گیا۔ انڈیا میں اول جینے نہیں دوں گا نام سے ہندی اور بعد میں جٹ دا پتر نام سے پنجابی میں بنایا گیا۔ اور مولا جٹ کے بعد انہیں کرداروں کے ساتھ جٹ ان لندن جٹ دا ویر وغیرہ وغیرہ نام سے مذید کہیں فلمیں بنی لیکن مولا جٹ اپنی اصل میں سب سے اول ہی رہی۔ مجھے ذاتی طور پر فلم بینی کا کبھی کوئی خاص شوق نہ رہا۔ کبھی ذمانہ طالب علمی میں ہالی وڈ کی جیمزبانڈ سیرز کی فلمیں دیکھتے تھے یا پھر کبھی کبھار اردو فلم دوستوں کے ساتھ۔ مولا جٹ جب پنڈی میں ریلیز ہوئی تو میں نے نہیں دیکھی البتہ اس وقت فلموں کے ریڈیو پروگرام چلتے تھے۔ اور ریڈیو پر مولا جٹ کے حوالے سے مصطفے قریشی کے ڈائیلاگ نشر کئے جاتے تھے۔ جو کافی اچھوتے محسوس ہوتے پھر یہ فلم اتر گئی اور دوبارہ کچھ عرصہ بعد ریلیز ہوئی ہم نے تب بھی نہ دیکھی مجھےاسکا نام ہی عجیب سا لگتا تھا مولا جٹ۔ پھر یہ قریب سن اٹھاسی میں قریب دس سال بعد تیسری بار ریلیز کی گئی مجھے یاد ہے کہ تب مجھے ایک دوست سلمی آغاز کی پہلی پاکستانی فلم دیکھانے لے گیا تھا ہم اور تم نام سے لیکن بدقسمتی سے ہمیں سپیشل شو کے ٹککٹ نہ ملے ہم واپس آرہے تھے کہ مری روڈ پر سامنے ایک سینیما میں مولا جٹ لگی ہوئی تھی۔ میرے دوست نے مجھے کہا چل یہی دیکھ لیتے ہیں لیکن میں نہ مانا کہ یار کیا فلم ہوگی نام ہی مولا جٹ ۔ کچھ دیر تک میرا دوست مجھے قائل کرتا رہا جب میں نہ مانا تو وہ مجھے یہ کہہ کر کہ میں دیکھنے جا رہا ہوں مجھے چھوڑ کر چلا گیا اور اتفاق سے وہی مجھے ایک شناسا مل گیا میں اس سے حال چال پوچھ رہا تھا کہ میرادوست مایوس واپس آیا اور گلہ کرنا شروع کر دیا کہ میری وجہ سے وہ لیٹ ہوگیا اور ہاوس فل ہوگیا۔ مجھے حیرت محسوس ہوئی کہ یہ فلم تیسری بار ریلیز ہوئی اور اب بھی اتنی مقبول سو میں نے دوست کو کہا آج گھر نہیں جاتے بلکہ شام کا شو دیکھیں گے۔ اور پھر اسی دن میں نے شام کے شو میں مولا جٹ دیکھی اور آپ یقین کریں اس کے بعد میں یہ فلم سات بار دیکھ چکا ہوں اور اب بھی اگر کہیں یہ فلم لگی ہو تو شوق سے دیکھ سکتا ہوں یہ فلم کہانی اداکاری ہدایت کاری بیک روانڈ میوزک کے علاوہ اس لحاظ سے منفرد تھی کہ اس میں پہلی بار ولن کا ایک مضبوط کردار تخلیق کیا گیا۔ اور ولن بھی دو ایک نوری نت اور ایک اسکی بہن دارو نتنی۔بہت ہی پاور فل کردار تھے اور خاص کر نوری نت کا جو کردار مصطفے قریشی نے ادا کیا اس نے تو ڈائیلاگ ڈیلیوری میں کمال کر دیا۔المختصر مولا جٹ ایور گرین فلم ہے اور سنا ہے کہ اس کے پروڈیسر سرور بھٹی نے اس کو دوبار ریلیز کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ویسے اس اصل مولا جٹ کے اکثر حصہ دار اب اس دنیا میں نہیں مآ سوائے مصنف ناصر ادیب فلم ساز سرور بھٹی اور مرکزی ولن مصطفے قریشی کے علاوہ سب دنیا سے جا چکے۔ اسکا ہیرو سلطان راہی ہیروئین آسیہ فی فیل ولن چکوری مددگار ولن ادیب مزاحیہ کردار البیلا و رنگیلا الیاس کاشمیری کیفی التہ کہ جیلر کا کردار ادا کرنے والا ادکار بھی فوت ہوگئے ہیں۔ اور اب انہیں کرداروں کے ساتھ لیجنڈ آف مولا جٹ بنائی گئی۔ اور اس نئی مولا جٹ کا اگر موازنہ پرانی مولا جٹ سے کیا جائے تو یہ بالکل غلط ہوگا۔ لیجنڈ آف مولا جٹ ہر لحاظ سے کم تر فلم ہے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ بلال لاشاری کو اول تو اداکاروں کا چناؤ بہت سوچ کر کرنا چاہئے تھا۔ کہاں خوبرو آسیہ اور کہاں اردو سپیکنگ ماڈرن مائرہ خان۔ میری ذاتی رائے اگر پوچھی جائے تو نئی فلم میں مکھو جٹی کے کردار کو صفر نمبر دیا جا سکتا ہے اسی طرح ماکھا نت کا کردار بھی بہت ہی غلط اداکار سے کروایا گیا۔ مذید مودے کا کردار بھی کیفی کی طرح بالکل نہ ہوا۔ البتہ مولا جٹ کو پچاس نوری نت کو چالیس اور دارو نتنی کو نوے نمبر دئے جا سکتے ہیں۔ دارو نتنی کا واحد کردار تھا کہ جس لڑکی نے کیا وہ بہرحال چکوری کی قائم مقام بن گئی۔دوسرا اس کی کہانی بہت عجیب ہے اور اسکا سکوئیل اگر یوں بنایا جاتا کہ مصطفے قریشی کو ایک مختصر طور پر کردار کیا جاتا اور اس سے سوال کیا جاتا کسی بھی پوتے یا نواسے سے کہ ہماری دشمنی جٹوں سے کیوں تھی اور پھر تمام فلم خیالوں میں پکچرائز کی جاتی کچھ اور تبدیلیوں کے ساتھ۔ مولا جٹ کا کردار شان کو دیا جاتا جبکہ نوری نت کا شفقت چیمہ کو۔آسیہ کی جگہ مکھو جٹی کا کردار ہر صورت کسی ایسی خاتون کو دیا جاتا کہ جو انداذ و شکل سے صیح پنجابی جٹی محسوس ہوتی۔اور اس واسطے ٹی سٹیج و فلم میں بیشمار لڑکیاں مل سکتی تھیں۔ اب بلال لاشاری کو یہ سمجھ نہیں کہ جن لوگوں نے پرانی مولا جٹ یا اس سیرز کی اکثر فلمیں دیکھی ہیں وہ ہمیشہ مکھو جٹی کا کردار آسیہ کو تصور میں لے کر دیکھتے ہیں۔ اور پھر سب سے عجیب کردار ماکھا نت کا تھا آپ یقین کریں یہ اداکار جس کو میں نہیں جانتا لیکن یہ مکمل مذاحیہ کردار لگتا تھا کسی صورت ولن نہیں لگتا تھا۔ بہرحال چونکہ آج کل میڈیا کا دور ہے اور جیو کی شکل میں ایک طاقتور ادارہ اس کا اشتہاری پارٹنر ہے سو یقینا جیو کے ذور پر شاید اس فلم میں کی کمائی ذیادہ سے ذیادہ ہو جائے۔ ویسے سچ بات یہی ہے کہ یہ فلم میرے ذاتی خیال میں آپ اختلاف کر سکتے ہیں لیکن اس کا پلاٹ انتہائی کمذور ڈائیلاگ بیشک چوری شدہ تھے لیکن بات بن نہ سکی۔ ڈائریکشن بہت کمذور تھی۔ اداکاری بارے اوپر لکھا جا چکا۔ اور بے ہنگم قسم کا بیک راونڈ میوزک تو عام شخص کو محض غصہ چڑھا سکتا تھا۔ اس لیجنڈ آف مولا جٹ کے مذاق کے بعد ضرورت اس امر کی ہے کہ ؛؛؛مولے کی واپسی ؛؛؛ نام سے ایک اور فلم بنائی جائے اور کہانی پلاٹ سے پہلے یونس ملک اور اصل مولا جٹ کے کرداروں کا بغور جائزہ لیکر کام شروع کیا جائے۔ وگرنہ دوسری صورت میں ایک پنجابی مثال کے مطابق برا رونے سے چپ بہتر ہوتی ہے۔اب معلوم نہیں یہ کام کوئی اور کرنے کی کوشش یا صلاحیت رکھتا بھی ہے یا نہیں۔ لیکن کرے وہی جو پنجاب کے گنڈاسہ کلچر اور پرانی مولا جٹ کو خوب سمجھ گیا ہو۔ویسے ہمارا مشورہ ہے کہ یہ کام مرحوم سلطان راہی کا بیٹا حیدر سلطان ضرور کرے۔لیکن بطور فلم ساز اس میں ادکار و ہدایت کار یقینا کوئی اور ہو تو پھر شاید فلموں کے شائقین کو اصل مولا جٹ یاد آ جائے۔ fayazsyed111@gmail.com

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں