Special writing on the death anniversary of Martyr Democracy Ms. Benazir Bhutto 388

یہ پھول اپنی لطافت کی داد پا نہ سکا کھلا ضرور مگر کھل کے مسکرا نہ سکا شہید جمہوریت محترمہ بینظیر بھٹو کی برسی پر خصوصی تحریر

کالم نگار : اعجاز احمد طاہر اعوان

پاکستان پیپلز پارٹی کی چئیرپرسن محترمہ بینظیر بھٹو کو ہم سے بچھڑے 15 سال کا طویل عرصہ بیت گیا ہے، آج بھی ان کی جدائی کا غم، دکھ اور افسردگی کے ساتھ یاد آتا ہے، مگر ان کی سازش میں ملوث وہ لوگ آج تک بےنقاب نہی ہو سکے، جنہوں نے اس تاریخ ساز شخصیت کو شہید کیا.
محترمہ بینظیر بھٹو شہید نے 21 جون 1953 کو شہر کراچی میں “بھٹو خاندان” میں اپنی آنکھ کھولی، قدرت کے علاوہ کسی کو یہ علم نہ تھا کہ “بھٹو خاندان” میں پیدا ہونے والی یہ بچی ایک دن بین الاقوامی سطح پر شہرت کی بلندیوں کو چھونے گئی، ان کی ساری زندگی “جدوجہد” میں ہی گزر گئی ان کے نزدیک ایک ہی لفظ اہمیت رکھتا تھا اور وہ تھا رد “جدوجہد” اور مسلسل “جدوجہد ”
شہید جمہوریت محترمہ بینظیر بھٹو وہ تاریخ ساز شخصیت کی اور حقیقت پسندی کی مالک بہادر اور بلند جزبوں کی مالک عظیم خاتون تھیں، اور سب سے کم عمر میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کی دوبار وزیراعظم منتخب ہو ے کا اعزاز بھی حاصل کیا،
محترمہ بینظیر بھٹو کو 27 دسمبر 2007 کو اسلام آباد کے ایک سیاسی جلسہ کے دوران عوامی جدوجہد کی تحریک کے دوران شہید کر دیا، اور سب عزیز کی بقاء و سالمیت کی خاطر اپنی قیمتی جا کا نذرانہ بھی پیش کر دیا، محترمہ بینظیر بھٹو نے بہت ہی کم عمری می سوا اور اس ملک کی خاطر اپنی جان کو قربان کرنے سے بھی دریغ نہ کیا، اس کی عظمت کو سلام پیش کیا جاتا ہے.
شہید محترمہ بینظیر بھٹو اپنے افکار اپنے عمل اور پیغام کے ذریعے آن بھی لوگوں کے دلوں می زندہ ہیں

4 اپریل 1979 کو “PPP” کے بانی و قائد ذوالفقار علی بھٹو کی شہادت کے بعد اس وقت کے آمروں اور فوجی حکمرانوں نے قوم کو یہ عندیہ دیا تھا کہ “PPP” کا دور نے ہو گیا، پارٹی کے ہو گئ یہ وہ صورتحال تھی کہ جس میں شہید محترمہ نے آ کر اس “چیلنج ” کو خندہ پیشانی کے ساتھ قبول کیا اور پارٹی کی قیادت کو سنئے جزبے اور جرائت کے ساتھ سنبھالا،

محترمہ بھٹو اندھیرے میں روشنی کا ایک نام تھا جمہوریت کے دشمنوں نے ایک سازش کے تحت انہیں شہید کر ڈالا آج وقت ک یہ تقاضا ہے کہ محترمہ کے سیاسی افکار اور ا کی زندگی کے ادھورے مش کو مکمل کیا جائے، انہوں نے اپنے افکار کے ذریعے شمع روشن کی تھی اسے دوبارہ روش کیا جائے، انکی زندگی کا یہ مشن بھی تھا کہ ایک ایسا معاشرہ قائم کی جائے جو مکمل طور پر استحصال سے پاک و صاف ہو

محترمہ بینظیر بھٹو شہید کی “شہادت” کا بہترین انتقام
“جمہوریت” کے ذریعے ہی لیا ج سکتا ہے، ملک کے اندر حقیقی جمہوریت کے نفاذ سے قومی اداروں کو تحفظ فراہم کیا جائے

محترمہ بینظیر بھٹو کی زندگی کا یہ خواب بھی تھا کہ ملک کے اندر عدلیہ آزاد خود مختار پریس کو مکمل آزادی، ہو اور پارلیمنٹ مقتدر اعلی کی حیثیت سے جمہوری نظام کے تقاضوں کو پورا کرے.
محترمہ بینظیر بھٹو کو پوری دنیا میں عزت اور قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا، ان کی شخصیت ایشیائی مسلم دنیا کی خواتین کے لئے “رول ماڈل” تھی، ا کی اپنی صلاحیتوں کی بدولت دنیا بھر کے ممالک نے ایوارڈز اور اعزازی ڈگریاں سے بھی نوازا
محترمہ ایک قابل سیاست دان اور سیاسی بصئرت کا درخشندہ ستارہ کی مانند تھی، ان کا سیاسی فلسفہ آن بھی پارٹی کی راہنمائی کے لئے پارٹی کا فولادی عزم ہے
وہ سیاست کے ساتھ ساتھ ایک بہترین قلم کار اور لکھاری تھیں دنیا بھر کے جرائد میں ان کے کالم اور مضامین شائع ہوئے، اور اپنی اعلی سیاسی بصیرت کی بدولت بھٹو خاندان کا نا روشن کیا، اس کے علاوہ “پیپلز میگزین” نے انہیں 50 خوبصورت خواتین کی فہرست میں بھی شامل کیا، “PPP” کی موجودہ قیادت کا یہ یہ فرض ہے کہ محترمہ کے ادھورے مش کو پوار کرنے یں اپنا اپنا کلیدی کردار ادا کریں تاکہ محترمہ کے افکار اور سیاسی نظریئے کو تقویت حاصل ہو سکی.

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں