آو اس پل کے پار چلیں
ندی کے پہلو میں جھولتا
اک آنسو سا لرزتا
ساگوان سا مہکتا
رات کی مانند گہرا روپ لیے
اک بے اعتبار
لکڑی کا پل
جسے راہی دیکھ کے بھی
ان دیکھا کر دے
روز مجھ سے باتیں کرتا ہے
جب ندی سے ملنے جاتا ہوں
مجھے اپنی اور بلاتا ہے
اور میں بن کا بھولا
اک راہی
اکثر اس کے پاس آ جاتا ہوں
اس پل کے پار
دھند اوڑھے
میں خود کو
بیٹھا پاتا ہوں
دیکھ کے کچھ گھبراتا ہوں
اور جنگل میں
کھو جاتا ہوں
نمیرہ محسن
ستمبر
2022
263