بات حقیقت پہ مبنی ہے ہم آزمائش سمجھتے ہیں انگریز اسے مس مینیجمینٹ Mismanagement کہتے ہیں
جب اداروں میں اخلاقی قدروں کو پامال کیا جاتا ہو وہاں مس مینیجمینٹ اپنے پنجے گاڑ دیتی ھے
آج وطن عزیز میں یہی کچھ نظر آرہا ھے
دینی تعلیمات، آئین، اخلاقیات اور انسانی حقوق کا گلہ گھونٹ کر امپورٹڈ حکومت، حکومت کر رہی ھے
ایسے میں مینیجمینٹ نہیں چیزوں کو مینج کیا جا رہا جب چیزیں مینج ہونے لگیں وہاں کمپرومائز جنم لیتی ھے
ایک دفعہ کمپرومائز کی کھڑکی کھل جائے تو پھر بند نہیں ہوتی
کھلی کھڑکی سے افواہوں کو آنے سے کوئی روک نہیں سکتا
افواہیں جھوٹ پر مبنی ہوتی ہیں، جھوٹ بولا جاتا ھے اور ٹوک شوز میں دکھایا جاتا ھے
معصوم ذہنوں میں سچ کی جگہ جھوٹ کو داخل کر دیا جاتا ھے
وقت کے ساتھ ساتھ آنے والی نسلوں کو جھوٹ سچ لگنے لگتا ھے
اس سارے پروسس کو امپورٹڈ مس مینیجمینٹ کہا جاتا ھے
ہم اپنی غلطیوں کو قدرتی آفات کا نام دے کر بڑی آسانی سے پہلو تہی کرتے ہیں
اپنی کوتاہیوں کا ذمہ دار قدرت پر ڈال دیتے ہیں
75 سالوں سے مس مینیجمینٹ کا سلسلہ چل رہا ھے ، اب وقت آگیا ھے کہ موجودہ نسل اسکی قیمت ادا کرے آخر کب تک اپنے مکان بناتے رہیں گے اور سیلاب کی نظر کرتے رہیں گے۔
سیلاب زدگان میں پچاس روپے تقسیم کرنے والوں کو شرم نہیں آئی جو تیس سالوں سے صوبہ پر قابض ہیں۔
فوٹو سیشن کروا اور عوام سے نعرے لگوائے بھٹو زندہ ھے۔
پچھلے پچاس سالوں میں ایک بھی قابل قدر ڈیم نہیں بنایا گیا، تین سالہ دور حکومت میں تحریک انصاف نے دس بڑے ڈیم بنانے کا منصوبہ بنایا جن پر کام بھی شروع کیا گیا۔
لیڈر آنے والے والی نسلوں کی فکر کرتا ھے آنے والے الیکشن کا نہیں
222