سندھ میں ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت سندھ کارڈ کھیل دیا گیا ھے 300

کراچی ڈوب گیا کوئی دلچسپی نہیں رکھتا ھے تحریر: محمد امانت اللہ

عالمی طاقتوں کو یہ مقصود ھے، کراچی کو محنجو داڑو بنا دیا جائے.پاکستان کی معیشت کو تباہ و برباد کر دیا جائے لوگ بھوک اور افلاس سے مرنے لگیں اور ہم مسیحا بن کر آئیں اور کراچی پر قبضہ کر لیں۔
یہ کھیل اس وقت شروع ہوا جب کراچی جاگتا تھا تو ایوان اقتدار میں ہلچل مچ جاتی تھی اور حکومت گھٹنے ٹیک دیتی تھی۔
جنرل ضیاءالحق کا مارشل لاء لگا پیپلزپارٹی کو کمزور کرنے کے لیے اندرون سندھ جی اے سندھ کی سرپرستی کی گئی اور کراچی میں جماعت اسلامی کو کمزور کرنے کے لیے ایم کیو ایم کی بنیاد ڈالی گئی۔
جنرل ضیاءالحق کے پورے ادور میں کراچی پرسکون رہا انکی حکمت عملی کے اعتبار سے
مگر آپس میں لڑائیاں شروع ہو گئیں.لسانی اور مذہبی بنیادوں پر بشری زیدی کا واقعہ رونما ہوتا ھے اسکے بعد سے آج تک کراچی میں امن قائم نہ ہو سکا۔
کراچی میں فوج کو طلب کر لیا گیا بعد میں اسکو رینجرز کا نام دے دیا گیا چار دہائیاں گزرنے کو ھے مگر شہر کراچی بد سے بدتر ہوتا چلا گیا
جب کبھی رینجرز کو واپس بھیجنے کی بات ہوتی ھے مختلف علاقوں میں حالات خراب کر دیے جاتے ہیں تاکہ انکی مدت میں اضافہ ناگزیر ہو جائے یہی سلسلہ آج تک جاری ھے.
ایم کیو ایم نے اپنے عروج پر جتنا کراچی کو نقصان پہنچایا ھے اسکی مثال نہیں ملے گی ایک کال پر پورا شہر بند کر دیا جاتا تھا.
پیپلزپارٹی نے ایم کیو ایم کو ساتھ ملا کر اس شہر میں خوب لوٹ مار کی، حیرت اس بات پر ہوتی ھے رینجرز کی بھاری نفری موجود ہونے کے باوجود بڑے ہی منظم طریقے سے وارداتیں ہوتی رہی حکومت سندھ کی سرپرستی میں مگر سب خاموش تماشائی بنے رہے.
آج پیپلزپارٹی والے کہتے ہیں کراچی کے لوگ جن کو ووٹ دیتے ہیں ان ہی سے کہیں اس شہر کے بارے میں سوچیں۔ وہ کہتے ہیں ہمارے پاس اختیارات نہیں ہیں مگر اقتدار کے مزے دونوں مل کر لوٹتے ہیں۔
آج شہر کراچی کے 52 تھانوں میں سے ایک بھی ایس ایچ او کراچی کا نہیں ھے۔ پولیس میں 90 فیصد افراد شہر کراچی کے نہیں ہیں، شہر میں لوٹ مار کا لامتناہی سلسلہ آج تک جاری ھے۔ جن میں سے اکثر واردات حکومت کی سرپرستی میں ہوتی ھے.
شہر کراچی ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ھے، شہر کراچی میں پبلک ٹرانسپورٹ اور دیگر سہولیات نہ ہونے کے برابر ھے۔
کراچی میں پاور سپلائی *کے الیکٹرک * کرتی ھے جو ملک میں دیگر علاقوں سے زیادہ مہنگی بجلی دیتی ھے۔
ملکی معیشت تنزلی کا شکار ھے سرمایہ دار شہر کراچی سے اپنے کاروبار کو سمیٹ کر دبئی اور بنگلہ دیش منتقل کر رہے ہیں.مجال ھے حکومت اور دیگر اداروں نے ان چیزوں کا نوٹس لیا ہو
پڑھا لکھا تجربہ کار لوگوں نے یہاں سے ہجرت کرنا شروع کر دیا ھے، ایک اندازے کے مطابق تیس ہزار تعلیم یافتہ اور اپنے پیشے میں مہارت رکھنے والے افراد دنیا کے مختلف ممالک کی شہریت لے چکے ہیں۔
آج یہ حالت ھے کراچی کے مقامی لوگوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ھے
مسجد کے امام سے لے کر تمام سرکاری اداروں میں مقامی لوگ نظر نہیں آئیں گے حد تو یہ ھے بھیک مانگنے والے اور انکو پکڑنے والے سب ہی دوسرے شہروں سے آئے ہوئے ہیں
اب تو یہ حالت ھے اس شہر کو تباہ و برباد کرنے والے زیادہ اور اس شہر کی حفاظت کرنے والے آٹے میں نمک کے برابر ہیں .آج بھی یہ شہر ملکی معیشت میں سب سے زیادہ ریونیو دیتا ھے۔
ایک بھی سڑک ٹھیک نہیں ھے پانی کی فراہمی پائپ لائن میں نہیں بلکہ ٹینکر مافیا کے ذریعے ہوتی ھے.آب نکاسی نہ ہونے کے برابر ھے، بجلی کی بدترین لوڈشیڈنگ ہوتی ھے
پبلک ٹرانسپورٹ ، ہسپتال اور سرکاری سطح پر تعلیمی اداروں کی تعداد آج بھی وہی ھے جو آج سے چالیس سال قبل تھی۔
دو دنوں کی حالیہ بارش میں شہر کراچی ڈوب گیا ہزاروں گھروں میں سیورج کا پانی داخل ہو گیا، دکانیں ڈوب گئیں گاڑیاں سڑکوں پر کھڑی ہیں۔ کاروبار تباہ و برباد ہو گئے.وزیر اعلی صاحب نے ایک پریس کانفرنس کر دی اور باقی رہے نام اللہ کا۔
کاش حکومتیں شہر کراچی پر توجہ دیتیں اسکی خوشحالی اور ترقی کے اثرات ملکی ترقی پر نمودار ہوتے مگر ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت اس شہر کو تباہ و برباد کیا جا رہا ھے
حکومت اور حکومتی اداروں کا ایک ہی مقصد نظر آتا ھے جتنی جلدی اور جتنا زیادہ اس شہر لوٹ سکتے ہو لوٹ لو۔
ناامیدی کفر ھے مگر حقیقت یہی ھے
دور دور تک کوئی بھی پارٹی یا ادارہ
اس شہر کے مسائل کو حل کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتا ھے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں