انتخابات ناگزیر ہیں! کیونکہ
ڈاکٹر زین اللہ خٹک
جس طریقے سے سپریم کورٹ آف پاکستان نے پارلیمنٹ میں مداخلت کی اور سپیکر کی قانونی رولنگ کو ختم کرکے وزیراعظم عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کامیاب بنانے میں کردار ادا کیا۔ یہ آرٹیکل 69 کی کھلے عام خلاف ورزی ہے دوسری طرف دس اپریل تاریخ اور پاکستانی جمہوریت کا سیاہ ترین دن ہے۔ جس دن پارلیمنٹ میں مداخلت کی گئی۔ اس کے نتیجے میں ملک میں سیاسی عدم استحکام پیدا ہوا ہے۔ لہذا اس سیاسی عدم استحکام کے خاتمے کے لیے بروقت انتخابات وقت کی ضرورت ہے۔ ملک میں 16.8 ملین ووٹوں کی حامل سب سے بڑی پارٹی پاکستان تحریک انصاف کو اقلیت میں بدلنے کے لیے منظم کوششیں کی گئی۔ پاکستان تحریک انصاف کے منحرف ارکان اسمبلی کے خلاف کیس الیکشن کمیشن آف پاکستان میں ہے۔ لیکن الیکشن کمیشن آف پاکستان نے بروقت اس کیس کو نہیں نمٹایا۔ اور نہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے آرٹیکل 63 میں نااہلی کی مدت کا تعین کیا۔جس کی وجہ سے ملک میں انتشار پیدا ہوا ہے۔ اور ملک میں انارکی پھیلی ہوئی ہے۔ اس انارکی کے خاتمے کے لیے بروقت انتخابات ناگزیر ہیں۔وزیراعظم عمران خان کی حکومت نے بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کو پہلی بار ووٹ کا حق دیا۔ جس کی وجہ سے بیرونی ممالک میں مقیم پاکستانیوں کی خوشی ناقابل یقین ہے۔ لیکن موجود شہباز شریف کی حکومت ان سے ووٹنگ کا حق واپس لینا چاہتی ہیں۔اس غیر یقینی صورتحال پر اوورسیز کمیونٹی تشویش میں مبتلا ہے۔جس کی وجہ سے دنیا بھر میں مقیم پاکستانی سراپا احتجاج ہے۔ ووٹ پاکستانیوں کا قانونی حق ہے۔ دنیا بھر میں لاکھوں پاکستانی ملک کے معاشی ترقی میں نمایاں کردار ادا کررہے ہیں۔ وہ دنیا بھر میں پریشان ہیں۔ لہذا بروقت انتخابات ناگزیر ہیں۔ تاکہ بیرون ممالک میں مقیم پاکستانیوں کو ووٹ کا حق مل سکے ۔ملک میں اس وقت جو فضا بنی ہے۔ سیاسی درجہ حرارت روز بروز بڑھتا جارہا ہے۔ گزشتہ دنوں میریٹ ہوٹل اسلام آباد میں پھر پنجاب اسمبلی میں جو کچھ ہوا۔ جس طرح پولیس کے ذریعے ممبران اسمبلی کو زدو کوب کیا گیا۔ اس کی مثال جمہوریت میں نہیں ملتی ہے۔ملک میں شدید سیاسی اور نظریاتی بحران موجود ہے۔ ایسے بحران ملک کے لئے نقصان دہ ہے۔ لہذا فوری انتخابات ناگزیر ہے۔جس طرح دس اپریل کی رات ملکی اداروں نے عمران خان کی حکومت گرانے میں اپنا کردار ادا کیا۔ وہ سوالیہ نشان ہے۔ آج ملک کی 65 فیصد آبادی ملکی اداروں کو سوالیہ نظروں سے دیکھ رہی ہے۔ جو انڈیا۔ ففتھ جنریشن وار میں اربوں روپے میں نہ کرسکے وہ آج پاکستان کے نوجوان مفت میں کررہے ہیں۔ ملکی اداروں کا تقدیس پامال ہورہا ہے۔ ملکی وحدت پارہ پارہ ہورہی ہے۔ لہذا بروقت انتخابات ناگزیر ہے تاکہ ملکی اداروں کے تقدس کو بچایا جا سکے۔ملک کے دو روایتی حریف اور روایتی سیاسی جماعتوں پاکستان مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی نے نوئے کی دہائی میں ایک دوسرے کی حکومتوں کو گرانے کا سیاسی بازار گرم کر رکھا تھا۔ بعد میں میثاق جمہوریت کے علمبردار بننے کی کوششیں کی۔ لیکن جلد ہی مشرف کے ساتھ پیپلز پارٹی پیٹریاٹ بناکر حکومت میں شرکت کی۔ان دونوں نے امریکی فنڈنگ کے زریعے سندھ ہاؤس منڈی لگادی تھی۔ پاکستانی اداروں کے بل بوتے پر عمران خان کی حکومت کا خاتمہ کردیا۔ چونکہ پچھلے الیکشن میں پاکستانی قوم نے عمران خان کو مینڈیٹ دیا تھا۔ لہذا اب عوام میں اشتعال پایا جاتی ہے۔آگر عوامی مینڈیٹ کا خیال نہیں رکھا گیا۔ تو ملک ٹکڑے ٹکڑے ہوسکتا ہے۔ جس طرح 1970 انتخابات کے نتیجے میں مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن چکا ہے۔جب تحریک انصاف نے 2018 ملک کی بھاگ ڈور سنبھالی تو ملک دیوالیہ ہونے کے قریب تھا لیکن عمران خان جو پہلی بار وفاق میں حکومت میں آئے تھے۔ انہوں نے مایوس ہونے کے بجائے بھرپور عزم کے ذریعے ملک کو مشکل صورتحال سے باہر نکالا،تمام عالمی اداروں کی رپورٹس موجود ہیں جس کے مطابق تحریک انصاف کے دور میں معاشی اشاریے بہتری کی جانب گامزن تھے، برآمدات میں بے پناہ اضافہ ہوا، ترسیلات زر ریکارڈ سطح پر پہنچیں،زرعی،تعمیراتی اور صنعتی شعبوں کی ترقی کی وجہ سے نہ صرف گروتھ ہوئی بلکہ لاکھوں کی تعدادمیں روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوئے۔روس سے تیس فیصد سستے تیل کے معاہدے بھی طے ہونے تھے۔ لیکن ایک ایسے وقت میں کیوں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو گرایا گیا۔ 65 فیصد عوامی رائے عامہ کے مطابق بروقت انتخابات ضروری ہے۔ ورنہ سانحہ بنگلہ دیش کی تاریخ کو دہرایا جاسکتا ہے۔موجود ملکی کابینہ بمع وزیراعظم عدالتوں سے ضمانت یافتہ ہیں۔ جن میں کرپشن، قتل اغواء برائے تاوان، منی لانڈرنگ جیسے کیسز شامل ہیں۔ یوں مملکت پاکستان دنیا بھر میں ہنسائی کاسبب بن گیا ہے۔ وفاقی کابینہ کے 34 میں سے 24 ارکان ضمانتوں پر ہے۔ کیا اس طرح کے ضمانتی مچلکے پر رہا وزراء دفاع، داخلہ اور دیگر وزارت کو چلاسکتےہیں؟ دنیا میں پاکستان کا وقار مجروح ہو رہا ہے لہذا ملکی وقار کی بحالی کے لیے بروقت انتخابات ضروری ہے۔ملک میں سوشل میڈیا ایکٹوسٹ کے خلاف ایف آئی اے کے ذریعے کریک ڈاؤن شروع ہے۔ جو کہ بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ جس سے ملک میں نفرت پھیل رہی ہے۔لہذا فوری انتخابات بہت ضروری ہے۔ دوسری طرف پشاور، کراچی اور لاہور کے جلسوں نے عمران خان اور پاکستان تحریک انصاف کی مقبولیت کو چار چاند لگا دئیے۔ٹوئٹر سپیس نے ریکارڈ قائم کا۔ سوشل میڈیا پر امپورٹڈ حکومت نامنظور ٹرینڈ نے نیا ریکارڈ قائم کیا۔ ایک طرف عمران خان کی مقبولیت بڑھ رہی ہے۔ تو دوسری طرف حکومت وقت کے خلاف عوامی ردعمل بڑھ رہی ہے۔ ڈالر مسلسل بڑھ رہا ہے۔ بجلی، آٹا، چینی کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہوا۔ سب سے بڑے صوبے پنجاب میں تین ہفتوں سے کوئی حکومت نہیں۔نیب کے کیسز میں ملوث افراد کو نکالا گیا۔ سرکاری وسائل کا بے دریغ استعمال شروع کیا گیا ہے۔ افطار پارٹیوں کے نام پر صحافیوں اور سیاسی ورکروں کو نوازا جارہا ہے۔ لہذا نظام کی موثر کارکردگی کے لیے بروقت انتخابات ضروری ہے۔
صدر مملکت اور چاروں صوبوں کے گورنروں کا تعلق پاکستان تحریک انصاف سے تھا۔ عدم اعتماد کے بعد تین صوبوں کی گورنری نے استعفیٰ دی۔ گورنر کے غیر حاضری میں سیپیکر بطور نگران گورنر فرائض سر انجام دے سکتا ہے۔ لیکن چونکہ گورنر وفاق اور صوبائی کے درمیان رابطے کا ذریعہ ہے۔ اور گورنر آئینی عہدہ ہے۔ لہذا استعفوں سے خلیج پیدا ہوئی ہے۔ قانونی طور پر سپیکر گورنر کی غیر حاضری کی صورت میں نگرانی کرسکتا ہے۔ جب استعفیٰ کی صورت میں نئے گورنر کا انتخاب ضروری ہے۔ تین ہفتوں سے صوبوں اور وفاقی حکومت میں آئینی مسائل لٹک گئے ہیں۔ صدر مملکت کو ہٹایا بھی نہیں جاسکتا ہے کیونکہ حکومت کے پاس اکثریت نہیں۔لہذا آئینی مسائل موجود ہیں۔ جس کی وجہ سے حکومت چلانا مشکل ہے لہذا فوری انتخابات ضروری ہے۔ قومی اسمبلی سے پاکستان تحریک انصاف کے 123 ایم این ایز نے اجتماعی استعفیٰ دے دیا ہے۔ لہذا ان حالات میں نہ تو قانون سازی ہوسکتی ہے۔ اور نہ اپوزیشن لیڈر موجود ہے۔ لہذا قانونی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا۔ جوکہ پاکستان کے مفاد میں نہیں ہے۔ لہذا بروقت انتخابات ضروری ہے۔ دوسری طرف 123 حلقوں پر انتخابات ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ لہذا تمام حلقوں پر انتخابات عوامی مطالبہ ہے۔اگر بروقت انتخابات نہ ہوئے تو ملک میں خانہ جنگی کا خطرہ ہے۔ لہذا ملکی سلامتی، وقار اور سربلندی کے لئے بروقت انتخابات ضروری ہے۔