کل رات تھوڑا سحر سے پہلے
لہو کے بہتے دریا میں کودا
کودتے ہی تھا ڈوب ابھرا
اپنی ہزار باہوں سے مجھے بلائے
اپنے درد کو خود پہ سجائے
بولا مسکا کے یوں کہ ہائے
کیا کروں یہ جگ نگوڑا
میری رگ رگ کو یوں نچوڑا
خرابی ایسی، تباہی ایسی
اے نوج زندگی زندان جیسی
پھر بھی مجھ کو بھاتی بہت ہے
گو کہ ہر پل رلاتی بہت ہے
جو میں نے پوچھا ، یہاں کیوں آئے؟
کیا معاملہ ہے جو ہم یاد آئے؟
ناراض ہو کر ابرو چڑھا کر
اک تیکھی نظر سے ہم کو لبھا کر
نخوت سے بولا ہمارا بگڑا ہوا دل
سینے سے ہمارے بچھڑا ہوا دل
یاد آیا کہ دلاوں، دن، گھڑی یا لمحہ بتاوں
جب تو نے مجھ کو نکال پھینکا
آنکھوں سے اپنی اتار پھینکا
تبھی سے اپنے ہی خون میں ہم
یوں ہی ڈوبا کئے ہرروز ہم
ابھر کے ڈوبے ، کبھی ڈوب ابھرے
نمیرہ محسن
10 اپریل 2022
231