شور نہیں شعور
قسط ستر
ڈاکٹر زین اللہ خٹک
سات اپریل کوچیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ جن میں جسٹس اعجازالاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس مظہر عالم میاں خیل اور جسٹس جمال خان مندوخیل نے متفقہ فیصلے دیتے ہوئے ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی قاسم خان سوری کی جانب سے وزیراعظم عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی قرارداد کو آرٹیکل پانچ کے تحت مسترد کرنے کے اقدام کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے اسمبلیاں بحال کرنے اور عدم اعتماد کی تحریک پر ووٹنگ کے لیے قومی اسمبلی کا اجلاس نو اپریل کو طلب کرنے کا فیصلہ سُنایا ۔ یاد رہے، امریکہ نے مارچ کے اوئل میں پاکستان کو خط لکھا اور وزیراعظم عمران خان کو دھمکی دی گئی۔ آٹھ تاریخ کو اپوزیشن نے عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک جمع کی۔ اس بین الاقوامی سازش میں کئی کردار شامل ہیں۔ جن میں انٹرنیشنل اسٹبلشمنٹ، ملکی اسٹبلشمنٹ، اپوزیشن جماعتیں ، اور پاکستانی میڈیا ہاؤسز، جن کو 50 ارب روپے کی ایڈوانس ادائیگی کی گئی ہے۔تین اپریل بروز اتوار قومی اسمبلی کا اجلاس جب قاسم خان سوری کی قیادت میں شروع ہوا۔ تو وفاقی وزیر قانون فواد چوہدری نے ایوان میں پیش کردہ تحریک عدم اعتماد کو آرٹیکل پانچ کے منافی قرار دیا۔ کیوں کہ آرٹیکل پانچ کے مطابق ریاست سے وفاداری ملک کے ہر شہری کا بنیادی فرض ہے۔ملک کے ہر شہری کا فرض ہے کہ وہ ہر حال میں ملک کے آئین و قانون کی پاسداری و احترام کرے۔ لیکن اس کے برعکس اپوزیشن پارٹیوں نے امریکی ایما پر عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کی۔ جو کہ ملکی قانون سے متصادم ہے۔ لہذا وفاقی وزیر نے ڈپٹی اسپیکر سے رولنگ مانگی۔ قاسم خان سوری نے آرٹیکل پانچ کی بنیاد پر عدم اعتماد کی تحریک کو مسترد کردیا۔ کیونکہ آرٹیکل پانچ آئین کا ایک بنیادی ماخذ ہے اور اس میں واضح لکھا کہ پاکستان کے ہر شہری کا اولین فرض ہے کہ وہ ریاست کے ساتھ وفادار رہے اور آئین و قانون کی پاسداری کرے۔ سپیکر کی رولنگ پر سپریم کورٹ نے اتوار کے روز پہلے روزے کو رولنگ پر سوموٹو ایکشن لیا۔سپریم کورٹ نے فیصلے میں زمینی حقائق کو نظر انداز کیا ، نہ غیر ملکی مداخلت کے موضوع پر تحقیقات کی۔ کیوں کہ اصل مسئلہ غیر ملکی مداخلت تھی، جس کی بناء پر قاسم خان سوری نے رولنگ دی۔ یوں غیر ملکی سازش پر خاموشی اختیار کی، قومی سلامتی کمیٹی اجلاس کا اعلامیہ تک نہیں منگوایا گیا اور سندھ ہاؤس میں ضمیروں کی منڈی پر خاموشی اختیار کی گئی۔ جو بہت سارے سوالات کو جنم دیتی ہے۔ دوسری طرف کس قانون کے تحت سپریم کورٹ نے سپیکر کو ہفتہ 9 اپریل کو دس بجے تک اجلاس طلب کرنے اور عدم اعتماد کی تحریک پر ووٹنگ کرنے کا پابند کیا۔عدالت کاکام قانون کی تشریح ہے۔ عدالت کاکام پارلیمنٹ میں مداخلت نہیں۔جمہوریت کے نام پر پاکستانی پارلیمنٹ میں مداخلت کی گئی۔ یہ جمہوریت اور پارلیمنٹ کی بالادستی پر وار ہے۔ سپیکر صاحب اس پر فوری رولنگ کی ضرورت ہے۔ عدالت نے آرٹیکل 69 کی کھلے عام خلاف ورزی کی۔آئین کے آرٹیکل 69 کے تحت سپریم کورٹ کو یہ اختیار حاصل نہیں ہے کہ وہ سپیکر کی رولنگ کو جج کرسکے۔
دنیا بھر میں جمہوری ممالک میں پارلیمان ایک خودمختار ادارہ ہوتا ہے۔پارلیمانی خودمختاری کا مطلب یہ ہے کہ پارلیمنٹ حکومت کی ایگزیکٹو اور عدالتی شاخوں سے اوپر ہے، اور اس لیے وہ کسی بھی قانون کو نافذ یا منسوخ کر سکتی ہے۔ یہ نہ صرف برطانیہ کے آئینی نظام کا سنگ بنیاد ہے بلکہ دولت مشترکہ کے کچھ حصوں جیسے کینیڈا میں بھی لاگو ہوتا ہے۔ ہم پارلیمانی خودمختاری کے خیال کا خلاصہ 19ویں صدی کے آئینی تھیوریسٹ اے وی ڈائسی نے کیا ہے۔
“پارلیمنٹ کو انگریزی آئین کے تحت کوئی بھی قانون بنانے یا اسے ختم کرنے کا حق حاصل ہے۔ اوریہ کہ کسی بھی شخص یا ادارے کو انگلینڈ کے قانون کے مطابق حق حاصل نہیں ہے کہ وہ پارلیمنٹ کی قانون سازی کو زیر کرنے یا اسے معطل کریں۔ لہذا سپریم کورٹ پر توہین پارلمینٹ کا کیس بنتا ہے۔ کیوں کہ کوئی بھی شخص قانون سے بالاتر نہیں۔ افسوس کہ سات اپریل کے فیصلے میں بیرونی مداخلت کی تحقیقات نہیں کئی گئی۔ جوکہ آرٹیکل پانچ کے استعمال کی اصل وجہ تھی۔ نہ حکومت کے موقف کو سنا گیا۔ جس سے سپریم کورٹ کے اس فیصلے پر سوالات اٹھ رہے ہیں۔ سات اپریل کو پاکستان کی سیاسی تاریخ کے ایک سیاہ ترین دن کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ جس دن وسیع تر قومی مفاد کی خاطر آیئن کے ساتھ کھلواڑ کیا گیا۔ اور پارلیمنٹ کی بالادستی پر حملہ کیا گیا۔
311