تحریک عدم اعتماد لانا اپوزیشن کا قانونی حق ہے۔ کسی بھی جمہوری معاشرے میں اپوزیشن کو ان کے اس قانونی اور جمہوری حق سے محروم نہیں رکھا جا سکتا ہے۔ پاکستانی سیاسی تاریخ میں وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کو 1973 کے قانون میں شامل کیا گیا۔ اس سے پہلے ملکی قانون میں عدم اعتماد کی کوئی گنجائش نہیں تھی۔ چونکہ ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کو جنرل ضیاء الحق نے ختم کرکے مارشل لاء نفاذ کیا۔ اور دوسری بات یہ بھی تھی کہ ذوالفقار علی بھٹو کو اسمبلی میں اکثریت حاصل تھی لہذا اپوزیشن نے ان کے خلاف اس قانون کو استعمال نہیں کیا۔ جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء کے خاتمے کے بعد 1989 میں پہلی بار اس قانون کو بینظیر بھٹو کی حکومت کے خلاف استعمال کیا گیا۔ اس وقت قومی اسمبلی میں بینظیر بھٹو کو براہِ راست 207 ارکان میں 92 ارکان کی حمایت حاصل تھی۔ فاٹا سے تعلق رکھنے والے 8 ایم این ایز, ایم کیو ایم اور کچھ آزاد ممبران اسمبلی کی حمایت حکومت وقت کو حاصل تھی۔ دوسری طرف اپوزیشن اسلامی جمہوری اتحاد کے 54 ارکان تھے۔ یہ عدم اعتماد کی تحریک نہایت جلد بازی میں اپوزیشن کی طرف سے پیش کی گئی جبکہ حکومت اس کے لیے ذہنی طور پر تیار نہیں تھی۔اپوزیشن نے 23 اکتوبر 1989 کو تحریک اسمبلی سیکرٹریٹ میں جمع کردی۔ اس حکومت کے اتحادی ایم کیو ایم نے حکومت سے علیحدگی کا اعلان کردیا۔ جو کہ حکومت کے لیے بہت بڑا دھچکا تھا۔ اس سے حکومت کا مورال ڈاؤن ہوگیا۔ اس تحریک پر سپیکر ملک معراج خالد نے کاروائی شروع کی۔ دونوں طرف سے بے تحاشا دولت اور اثرورسوخ کا استعمال کیا گیا۔ اس وقت پنجاب میں نواز شریف وزیراعلی تھے۔ ارکان اسمبلی کو اغواء کیا گیا۔ رقم سے بھرے تھیلے اور زبردستی مطلب ہر آپشن کا استعمال کیا گیا۔ ارکان اسمبلی کو مری، سوات، چھانگا مانگا اور اسلام آباد میں بگھٹی ہاؤس میں رکھا گیا۔ اسٹیبلشمنٹ کا ایک غالب دھڑا آئی جے آئی کی تحریک عدم اعتماد کی حمایت کر رہا تھا جبکہ دوسرا حکومت وقت کے ساتھ تھا بے نظیر بھٹو نے اپنے ارکان اسمبلی کو اس دن اجلاس میں شرکت سے منع کیا۔ 2 نومبر کو عدم اعتماد پر ووٹنگ ہوئی۔ چونکہ اپوزیشن کو اکثریت شو کرنی پڑتی ہے۔ جو وہ شو نہ کرسکی۔اپوزیشن کو 107 اور پیپلز پارٹی کو 124 ووٹ ملے۔ دوسری دفعہ پاکستان کے قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد 2006 میں پاکستان مسلم لیگ ق کے وزیراعظم شوکت عزیز کے خلاف پیش کی گئی تھی۔ اختلاف کی جانب سے ایک سو چھتیسں اراکین نے اس تحریک کے حق میں ووٹ دیا جبکہ دو سو ایک حکومت اراکین نے اس کے خلاف ووٹ دیا۔ موجودہ حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک 8 مارچ کو اسمبلی سیکرٹریٹ میں جمع کرائی گئی ہے۔ جس پر سپیکر قانون کے مطابق 14 دنوں کے اندر اجلاس طلب کرے گا۔ اس دوران پاکستان تحریک انصاف کے 14 کے قریب منخرف ارکان اسمبلی سندھ ہاؤس اسلام آباد سے برآمد ہوگے۔ جس نے ایک دفعہ پھر 1989 کی یادیں تازہ کردی۔ لیکن ایک فرق واضح ہے کہ اُس وقت حکومت اور اپوزیشن دونوں خرید وفروخت میں ملوث تھے۔ جبکہ اس دفعہ صرف اپوزیشن جماعتیں خرید وفروخت کے عمل میں ملوث ہیں۔ اس سے ملکی سیاست میں تلخیاں مزید بڑھ گئی ہے۔ ویسے بھی پاکستانی سیاست میں اخلاقیات کا فقدان تھا۔ فیصلے ایوان کے بجائے جلسوں اور جلوسوں میں گالیوں کی صورت میں دیے جاتے تھے۔پاکستانی سیاست اور سیاسی جماعتوں میں جمہوریت کا فقدان ہے۔ گزشتہ 74 سالوں میں جمہوریت کے بجائے غیر جمہوری اور غیر قانونی رجحانات بڑھ چکے ہے۔عدم اعتماد کے پیچھے تین قوتیں برسرپیکار ہے۔ ان میں ایک بین الاقوامی اسٹبلشمنٹ جن میں امریکہ، بھارت اور ان کی لابی شامل ہیں۔ عمران خان نے پاکستان کی آزاد خارجہ پالیسی تشکیل دی ہے۔ عمران خان کی آزاد خارجہ پالیسی کے دو بنیادی نکات” سپیچ اینڈ پیس” ہے۔ جس کی وجہ سے بین الاقوامی سطح پر عمران خان کو پزیرائی ملی ہے۔ اسلام فوبیا ہو یا کشمیر کا مسئلہ، فلسطین ہو یا یوکرائن کا مسئلہ عمران خان پیس کے ذریعے حل کے متلاشی ہے۔ افغانستان پر جب 2001 میں حملہ ہوا اس وقت عمران خان واحد پاکستانی سیاست دان تھے۔ جنہوں نے کہا کہ افغان جنگ کا واحد راستہ مذاکرات ہے۔ اور 20 سال بعد امریکی حکومت نے عمران خان حکومت کے تعاون سے افغانستان سے انخلا کو غنیمت جانا۔ پاکستان کی Absolutely not پالیسی بین الاقوامی اسٹبلشمنٹ کو پسند نہیں۔ حالیہ یوکرائن جنگ پر یورپی ممالک نے پاکستان کو خطوط لکھے لیکن سلامتی کونسل کے غیر مستقل رکن بھارت کو نہیں لکھے۔ عمران خان نے ان کی اس مہم کو غیر سفارتی قرار دیا۔ دوسری اہم قوت پاکستان کے اپوزیشن کی جماعتیں ہیں۔ بین الاقوامی اسٹبلشمنٹ نے پاکستانی اپوزیشن جماعتوں کو 50 ارب روپے مختص کئے کہ وہ عمران خان کی حکومت کا خاتمہ کریں۔ ان میں سے دو ارب روپے جمعیت علمائے اسلام ف کو دیے گئے ہے۔ تاکہ وہ مدرسوں کے یتیم بچوں کو بطور ہتھیار استعمال کریں۔ اور ملک میں افراتفری پھیلانے کے لیے ان کی ملڑی ونگ انصار الاسلام کو سڑکوں پر لائے۔ سندھ ہاؤس میں کھلے عام منڈی لگ گئی۔ وہی ہورہا ہے۔ جو 1989 میں بےنظیر بھٹو کے خلاف اس وقت کی اپوزیشن اسامہ بن لادن کے پیسوں سے کررہی تھی۔ اپوزیشن نے میڈیا ہاؤسز کو خریدا۔ بعض صحافیوں کو لندن لے جایا گیا۔تاکہ وہاں سے اپوزیشن لیڈر نواز شریف کو میڈیا کوریج ملے۔ یہ ایک مہینے کی بات نہیں بلکہ اس عمل پر عملدرآمد کافی عرصے سے کیا جارہا تھا۔ تیسری اہم قوت پاکستانی فوج ہے۔ جو دو حصوں میں منقسم ہیں۔ کچھ قوتیں پاکستان تحریک انصاف کے ایم این ایز کو بار بار تنگ کررہی ہیں۔ ان کو بتاتے ہیں کہ عمران خان کی حکومت نہیں چل سکتی ہے۔ لہذا اپوزیشن کو جوائن کریں۔ خصوصاً میڈیا پر منخرف ارکان کے جو نام بھی ارہے ہیں۔ یہ ان قوتوں نے میڈیا کو فراہم کردئیے تھے۔ تاکہ ملک میں سیاسی عدم استحکام پیدا کیا جائے۔ افسوس اس ادارے کا کام ملکی سرحدوں کی نگرانی اور تحفظ ہے۔ لیکن یہ روز اول سے سیاست میں مداخلت کررہا ہے۔ جوکہ پاکستان کے قانون کے آرٹیکل چھ کی کھلے عام خلاف ورزی ہے۔یہ تینوں قوتیں غیر جمہوری اقدامات کے ذریعے عمران خان کی حکومت کے خلاف آواز اٹھا رہی ہیں۔ کوئی جمہوریت پسند اور جمہوری شحض غیر جمہوری روایات کی پاسداری نہیں کرسکتا ہے۔ لیکن افسوس کہ آج جمہوریت کے علمبردار سیاسی جماعتیں جمہوریت پر کھلے عام حملے کرتی ہیں۔ جمہوری روایات کا مزاق اڑاتے ہیں۔ خرید وفروخت کرتے ہیں۔ فلور کراسنگ کرتے ہیں۔جو کسی طور پر بھی جمہوری روایات نہیں۔ لہذا وقت کا تقاضا ہے کہ ہر جمہوری پسند پاکستانی اٹھ کر وزیر اعظم عمران خان کا ساتھ دے۔ تاکہ ملکی سیاست سے خرید وفروخت جیسے گھناؤنے فعل کا قلع قمع کریں۔ یہی ووٹ کی عزت ہے
405