جو مادر پدر آزاد ہو کر نجانے وہی آزادی کیوں مانگ رہی ہے جو یورپ روس اور امریکہ کی عورت نے 1800 میں لی اور آج وہاں سے اگر مسلم اور تازہ مہاجرین کی نسل کو ہٹا کر گنا جائے 213

ہماری بیٹیاں ہمارا فخر ہیں

تحریر:عدیل وڑائچ

جو مادر پدر آزاد ہو کر نجانے وہی آزادی کیوں مانگ رہی ہے جو یورپ روس اور امریکہ کی عورت نے 1800 میں لی اور آج وہاں سے اگر مسلم اور تازہ مہاجرین کی نسل کو ہٹا کر گنا جائے تو حقائق یہ ہیں کہ ان کے پاس اگلے 20 سال بعد ان کی اپنی نسل نہیں ہو گی.
کیونکہ عورت نے مرد بننا چاہا تو گھر ٹوٹ گئے. میں ہالینڈ میں چند روز قبل ایک دوست جو فیملی کورٹس میں پریکٹس کرتے ہیں ان سے ہوئی بات جو کہ کافی طویل تھی مگر نتیجہ یہ تھا کہ طلاق بہت تیزی سے پھیلی اس کے بعد جب مرد اور عورت کے رشتے کی توقیر ختم ہوئی تو گرل فرینڈ آزادی اور اس کے بعد ہم جنس پرستی سے سوسائٹی کو بہلایا.
یہاں پر جب نا رکی بات تو معاشی حالات اس طرح کے بنائے کہ ہر مرد و زن 2 سے 3 نوکریاں کرنے پہ مجبور ہو گیا.
نتیجتاً معاشرتی ہیجان اضطراب اپنے عروج پر ہے اور اس اثناء میں جو ایک نسل تیار ہونی تھی وہ موجود ہی نہیں ہے.
روس امریکہ اور یورپ کی فیکٹریوں میں پسنے والی وہ عورت گھر دیکھے بچے دیکھے یا تھکن سے چور اپناجسم اس لیے وہ معاشرے ٹوٹ پھوٹ گئے.
یہ ویڈیو ایک ایسی بچی کی ہے جسے گھر سے باپ کا سایہ ملا باپ ہر طوفان کے سامنے ڈٹ جاتا ہے.
وہ ہر مہینے ایک گڑیا اپنی بیٹی کے لیے ضرور خریدتا ہے.
مگر وہ خود بنیان جرابیں جوتے پھٹے ہوئے پہنتا ہے اور ہزار بار کہنے اور نظر آنے پر بھی کہتا ہے یہ تو ٹھیک ہے کیا ہوا اسے تھوڑا سا تو خراب ہے.
یہی بیٹیاں سب دیکھ رہی ہوتی ہیں. وہ جب اس مقام پہ پہنچتی ہیں تو ان کی آنکھیں اپنے باپ کے لیے بھیگتی ہیں.
یہ ڈرامے فلمیں جتنی کوشش کر لیں یہ چرس اور آئس کے نشے میں چور عورت مارچ والی کلاس جیسے مرضی چاہے مگر ہماری بیٹیاں ان کے جھانسے میں نہیں آئیں گی اور ہم بطور بھائی بطور باپ بطور شوہر اس گلستاں کی حفاظت کریں گے ہر طوفان خود سہیں گے بھوکے بھی رہیں گے پھٹی بنیان بھی پہنیں گے.
اور صدقے واری جائیں گے اپنی شہزادی بیٹیوں کے.
کیونکہ ہماری بیٹیاں ہمارا فخر ہیں.

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں