خود کار نظام سے اقاموں کی توسیع کا معاملہ حل ہو گیا۔ 614

خود کار نظام سے اقاموں کی توسیع کا معاملہ حل ہو گیا

رپورٹ : عالم خان مہمند

گزشتہ مہینہ 24 فروری سفارت خانہ پاکستان ریاض کے آفیشل ٹویٹر اکاؤنٹ سے ٹویٹ کیا گیا تھا۔کہ “‏جن اوورسیز پاکستانیوں کے اقامہ کو خود کار طریقے کے ذریعے 31 جنوری تک نہیں بڑھائے گئے وه سفارت خانہ پاکستان ریاض کے ایمیل پر اپنے کوائف بھیجیں۔جس پر سفارت خانہ کے عملہ نے ایکشن لیا اور سعودی حکومت موفا کو کوائف بھیجے گئے جس پر ایکشن آیا اورسفارت خانہ پاکستان ریاض کے آفیشل ٹویٹر اکاؤنٹ سے ٹویٹ کیا گیا کہ ‏معزز اوورسیز پاکستانیز !جن لوگوں نے اپنے اقامہ کی مدت نہ بڑھنے کی شکایت ہمارے دیے گئے ای میل پر بھجوائی تھی،ان شکایات کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا ہے۔ کل 1855 ای میل وصول ہوئیں ہیں جن میں سے845 اقامہ کی مدت میں توسیع سے متعلق تھے اور ‏متعلقہ سعودی اداروں سے معاملہ اٹھایا گیا ہے اور تمام تفصیلات اکٹھی کی جا رہی ہیں اور اقامہ کی مدت میں توسیع نہ ہونے کی وجوہات کا تعین کیا جا رہا ہے.
رابطہ کرنے والے تمام اشخاص کو علیحدہ علیحدہ سے ان کے لیگل سٹیٹس کے بارے میں جوابات پیر کے روز سے دیے جائیں گے۔
ایسا ٹویٹ سفارت خانہ پاکستان سے کیا گیا,جس پر جب ہمارے نمائندے پی این پی نیوز نے اپنے کچھ ذرائع سے ریسرچ کی تو اس کو تفصیل میں دیکھا تو پتا چلا کہ کیا وجہ تھی کہ ان افراد کے اقاموں کی توسیع کیوں نہیں ہوئی حلا کہ یہ سعودی حکومت کا خود کار سسٹم ہے جس سے اقاموں کی معیاد خود بخود توسیع ہو جاتی ہے جو لوگ اس کیٹیگری میں آتے ہیں۔
جب ہمارے نمائندے نے ریسرچ کی تو پتہ چلا کہ کافی لوگوں کے اقامے توسیع ہو گئے تھے 31 جنوری تک ، لیکن کچھ پاکستانیوں کے کیوں نہیں ہوۓ تھے تو کچھ اس طرح کی وجوہات ملی جو کہ مندرجہ ذیل ہیں۔

1۔ان میں سے کچھ افراد ایسے تھے جن کی کمپنیاں ریڈ یعنی سرخ میں تھی ،جس کی وجہ سے ان کا اقامہ میں توسیع نہیں کیا گیا تھا۔ریڈ یا سرخ کمپنی کا مطلب ہو سکتا ہے کہ اس شرکہ یا کمپنی نے اپنے اعمال کی کچھ مہینوں کی راتب یا سیلری نہ دی ہو ،یا گوسی کی فیس یا کوئی اور حکومت کی فیس نہ دی ہو ،یا اس کی سعودی افراد کم ہوں جو حکومت کے قانون میں ہو اور خارجی زیادہ ہوں۔
2۔کچھ افراد وه تھےان کی کمپنی ،کفیل یا شرکہ نے ہروب دے دیا تھا۔ہروب مطلب عامل کام سے بھاگ گیا ہو اور اس کو قانون کے مطابق واپس بھیجا جاتا ہے اور وہ واپس سعودی عرب بھی نہیں آسکتا ہے اس لیے بھی ان افراد کے اقامہ کی توسیع نہیں ہو سکی ہے۔
3۔ان میں وہ لوگ بھی تھے جو سائق خاص یا عامل منزلی سے تھے اور ان کا وزارۃ العمل میں کوئی ریکارڈ نہیں تھا۔گھریلوں ملازمین چونکہ اپنے کفیل کے ساتھ کام کرتے ہیں اور ان کے لیے لازمی نہیں ہوتا کہ انکا کفیل ان کو وزارۃ العمل میں رجسٹرڈ کروائے اور ان کی فیس بھرے یہ وجہ تھی اس کیٹگری میں ان افراد کے اقامہ کی توسیع بھی نہیں ہو سکی ہے۔
4۔کچھ افراد کا اس لیے توسیع بھی نہیں ہوا کیوں کے ان کی کمپنی لو گرین اور میڈیم گرین اور کچھ ہائی گرین میں تھے۔ان افراد کی کمپنی میں سعودی ورکر کی تعداد حکومت کے تناسب سے کم ہوگی جس کی وجہ سے ان کی کمپنی کی کیٹگری تبدیل ہوگئی ہو گی جس پر وہ پورا نہیں اترتے ہوں گے اور ان کے اقاموں کی توسیع بھی نہ ہوسکی ہوگی۔
اس پر ہمیں سمجھنا چاہئے کہ کیا وجہ تھی کہ اقامہ خود کار نظام سے توسیع نہیں ہوا ،ابشر اور مول پر ہر بندہ جا کر اپنے کوائف دیکھ سکتا ہے کہ اس کا اقامہ کا کیا سٹیٹس ہے تو یہ سب سوالات کے جوابات مل جائیں گے اور سب کچھ صاف ظاہر ہو جاۓ گا۔اس پر ہمیں سمجھنا چاہیے۔
یہ وہ معاملات ہیں جن پر سفارت خانہ پاکستان احسن طریقے سے اپنا کام سرانجام دے رہا ہے۔ہمیں اپنا کام بھی سہی کرنا چاہیے اور قانون کا احترم کرنا چایہے۔
ہم سب پاکستانی یہاں سعودی عرب میں پاکستان کے سفیر ہیں ہمیں قانون کی پابندی کرنی چاہیے۔
جو پاکستانی جس کفیل یا اقامہ پر ہیں انہیں وہی کام کرنا چاہیے تاکہ وہ لیگل طریقے سے کام کرسکیں اور ان کا کفیل یا کمپنی انکی خود ذمہ دار ہوں۔ان کی میڈیکل انشورنس ،اقامہ فیس اور ٹکٹ کا۔
جو لوگ اپنا کاروبار خود کر رہے ہیں انہیں چاہیے کہ وہ حکومت کے مطابق اپنے آپ کو رجسٹرڈ کروائیں اور لیگل طریقے سے کام کریں۔
یہاں اکثر پاکستانی کیش لے کر باہر پھر رہے ہوتے اور جب ان کو اگر کوئی پکڑ لیتا ہے تو سفارہ پاکستان میں اپنی شکایات کرتے ہیں انہیں بھی چاہیے کہ سعودی حکومت کے قانون کے مطابق کام کریں جیسا کہ پانچ ہزار کیش سے زیادہ رقم نہیں رکھنی چاہیے اگر اس سے زیادہ رقم ہو تو حکومت آپ سے پوچھ سکتی ہے کہ یہ پیسہ کہاں سے آیا ہے۔
ہم سب پاکستانیوں کو سعودی حکومت کے قانون کے مطابق کام کرنا چاہیے اور ان کے قوانین کا احترام کرنا چاہیے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں